پھر وہی کنٹینر، لیکن بیانیے سے ہوا تو نکل چکی

پھر وہی کنٹینر، لیکن بیانیے سے ہوا تو نکل چکی
کیا منڈی بہاءالدین میں ہم نے جنگ کا اعلان ہوتا دیکھا ہے؟

بدھ کو شریف خاندان کے گڑھ وسطی پنجاب میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنا بھاری کلہاڑا اٹھایا اور اسے زوروں سے گھمایا۔ اپنے کنٹینر پر کھڑے اپنے عہدے کی زنجیریں توڑ کر دوبارہ سیاسی جنگ میں داخل ہوتے وزیر اعظم بڑے پرجوش دکھ رہے تھے۔ وہ ایک بار پھر شکار گاہ میں بڑا شکار کرنے کے لئے واپس آ چکے تھے۔ وزیر اعظم خان شکاری خان میں بدل چکے تھے۔

وہی شخص، وہی کنٹینر اور وہی بیانیہ۔ تو تب اور اب میں فرق کیا ہے؟ وقت۔

وقت بدلتا رہتا ہے، جیسا کہ ایک مشہور گلوکار نے کہا تھا۔ بلکہ وقت بدل چکا ہے۔ لیکن کوئی حکومتی جماعت کو بتانا بھول گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جو باتیں کانوں کو بہت بھلی لگتی تھیں اب کوئی انہیں سننے کو تیار نہیں۔ تو یہ ہیں وہ پانچ وجوہات جن کی وجہ سے PTI بیانیوں کی جنگ ہار رہی ہے:

PTI یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایک حکومت جسے لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لئے مینڈیٹ ملا ہے وہ اقتدار میں آنے کے تین سال بعد اپنے مخالفین کو اپنے بیانیے کا مرکز نہیں بنا سکتی۔ شریفوں پر طنز و تنقید اس وقت کام کر رہی تھی جب شریف حکومت میں تھے اور عمران خان اپوزیشن میں۔ وہ آسان ہدف تھے اور عمران زبردست جارح تھے۔ جب وہ اپنے الفاظ سے شریفوں کی چیر پھاڑ کرتے تھے تو جس انداز میں سامعین دہاڑتے تھے اس سے واضح تھا کہ لوگ مانے ہوئے سیاسی پہلوانوں کے مقابلے میں ایک نوآموز کے ساتھ تھے۔ لیکن اب وقت بدل چکا ہے۔ PTI کو یہ بتانا ہوگا کہ اس نے لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لئے دیے گئے مینڈیٹ کا کیا کیا ہے (یا نہیں کیا) اور اگر نہیں کیا تو کیوں نہیں کیا؟ اگر وزیر اعظم اور وزرا نے اپنے بیانیے کو اپنے ووٹرز کی امنگوں کے مطابق نہ ڈھالا تو ان کا بیانیہ ہوا میں اڑ جائے گا۔

PTI کو یہ اندازہ نہیں ہو رہا کہ جو بیانیہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے مخالفین کو پچھاڑنے میں استعمال ہوتا ہے، اسے حکومت میں آنے کے بعد اپنے کاموں کی ترویج کے قابل بھی بنانا چاہیے۔ حکومت میں ہوتے ہوئے حکومتی جماعت کی ناکامیوں میں سب سے حیرت انگیز (اور نقصان دہ) اس کا گورننس کے حوالے سے اپنی کامیابیوں کی ترویج میں ناکامی ہے۔ یہ اپوزیشن پر اس قدر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے کہ یہ بھول ہی گئی کہ ملک بھی چلانا ہے۔ اس نے اپنی کارکردگی کے بجائے اپوزیشن کے ساتھ اپنے سلوک کو کارکردگی کا معیار بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ 'نااہل' اور 'سلیکٹڈ' کے ٹیگ ان کے ساتھ چپک گئے ہیں۔ PTI حکومت میں رہتے ہوئے اپنے کاموں (جتنے بھی تھے) کو مہارت سے سامنے نہیں لا سکی اور یہی وجہ ہے کہ اس کے ترجمان ان ٹیگز کا جواب نہیں دے سکے۔ الیکشن مہم میں جاتی جماعت کو یہ ناکامی بہت بھاری پڑے گی۔

پارٹی یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہے کہ احتساب پر اس کے بیانیے اور اس کی کامیابی میں کتنا بڑا فرق ہے اور اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ کوئی وجہ تھی کہ طاقتوروں کے احتساب کا نعرہ پاکستانیوں میں اتنا مقبول تھا۔ وہ طاقتوروں کے ہر طرح کے جرم کے باوجود صاف بچ نکلنے سے شدید تنگ ہیں خاص طور پر جب کہ انہیں خود اسی قانون کے ذریعے بدترین ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ عمران خان سے انہیں امید تھی کہ وہ احتساب سب کا کرے گا اور اسی لئے اس کے بیانیے پر وہ لبیک کہہ رہے تھے۔ لیکن پچھلے تین سالوں میں اس بیانیے کی بدترین ناکامی نے اس میں سے روح نچوڑ ڈالی ہے۔ ناصرف PTI ان لوگوں کو پکڑنے میں ناکام رہی ہے جن پر یہ کرپشن کا الزام لگاتی تھی بلکہ اس نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ اگر اس کے کسی اپنے پر کرپشن کا الزام لگے تو یہ اس سے صرفِ نظر بھی برتتی ہے۔ اس سے بیانیے کو کتنا نقصان پہنچا اس کا حساب لگایا ہی نہیں جا سکتا۔ اگر اب پارٹی اس بیانیے کے ساتھ عوام میں جاتی ہے – جیسے کہ وزیر اعظم منڈی بہاءالدین میں گئے بھی ہیں – تو انہیں زبردست پذیرائی نہیں ملے گی۔

PTI کو اب تک یہ نہیں سمجھ آئی کہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے عمومی الزامات لگائے جا سکتے ہیں لیکن جب آپ تین سال سے زیادہ حکومت میں رہ چکے ہوں تو ان الزامات کو ثابت کرنے کے لئے ثبوت دینا پڑتے ہیں۔ وزیر اعظم نے جمعے کو منڈی بہاءالدین میں اپنے مخالفین کے بارے میں بالکل وہی باتیں کیں جو انہوں نے 2017 میں بھی کسی جمعے کو کہی ہوں گی۔ یا 2015 میں۔ یا 2013 میں۔ بار بار ایک ہی بات لوگ بس اتنی ہی بار سنتے ہیں۔ خاص طور پر جب ان کی حکومت کو ان تمام الزامات کو ثابت کرنے کے لئے تین سال سے زیادہ وقت مل چکا ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ PTI اس پر کچھ بھی نہیں کر سکی، اور اسے بار بار وہی الزامات دہرانے پڑتے ہیں، اور انہیں ثابت کرنے کے لئے اس کے پاس ایسے کوئی ثبوت نہیں جو کسی عدالت میں پیش کیے جا سکیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پارٹی کے بیانیے میں سے ہوا نکل چکی ہے۔ یہ اس کے جیالے سپورٹرز میں تو مقبول ہو سکتا ہے لیکن ان سپورٹرز کی تعداد اتنی نہیں کہ یہ جماعت کو دوبارہ اقتدار میں لا سکیں۔ دوبارہ اقتدار میں آنے کے لئے پارٹی کو ان لوگوں کو واپس لانا ہوگا جنہوں نے اسے 2018 میں یہ بیانیہ سن سن کے عمران خان کو اس لئے ووٹ دے دیا تھا کہ باقی سب کو بھی تو دیکھ چکے ہیں، ایک بار انہیں بھی باری دے دیتے ہیں۔ اب وہ باری دے کے دیکھ چکے ہیں۔

پارٹی یہ سمجھنے میں ناکام ہے کہ اس کے پاس آفر کرنے کے لئے کچھ نیا نہیں ہے اور یہ خلا بہت خطرناک ہے۔ جو وعدے اس نے کیے تھے ان کا تو تین سال میں کچھ بنا نہیں۔ تقریباً سب ہی ناکام ہو گئے۔ ناکامی کی وجوہات اور بہانے ایک پراثر بیانیے کا حصہ نہیں ہو سکتے۔ کیا کرے گی PTI اگر اسے ایک اور مدت مل گئی؟ اگر جواب وہی ہے جو وہ 2014 میں کہہ رہے تھے کہ ہم کریں گے تو وہ اس دفعہ کیوں نہیں کر سکے؟ سسٹم کا قصور ہے؟ اپوزیشن کی غلطی ہے؟ عوام ٹھیک نہیں ملے؟

ناکامی کو ماننے، اسے تسلیم کرنے سے انکار سے اس سے بھی بڑی ناکامی جنم لیتی ہے۔




فہد حسین کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔