ضمنی انتخابات نے ثابت کردیا کہ روائتی پارٹیوں کا بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے، کیا متبادل ممکن ہے؟

ضمنی انتخابات نے ثابت کردیا کہ روائتی پارٹیوں کا بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے، کیا متبادل ممکن ہے؟
کل کے الیکشن نے ایک بر پھر ثابت کیا کہ روایتی پارٹیوں کا بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی نے پچھلے 35 سالوں کے ریاستی بیانئے، جس کا اہم جز سیاست دانوں کی کرپشن تھا، کو اسٹیبلشمنٹ سے چھین کر اپنی پارٹی کا بیانیہ بنا دیا ہے۔ دوسری جانب روایتی پارٹیوں کا رویہ آج بھی مغلیہ دور سے مختلف نہیں۔ ہر پارٹی میں جی حضوری کا کلچر پروان چڑھایا گیا ہے اور کبھی عوام کو اس قابل ہی نہیں سمجھا گیا کہ ان کے سامنے کوئی متبادل پروگرام پیش کیا جائے۔ بس مسلسل یہ کہتے رہے کہ سیاست کی پچیدگیوں کو ہم سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا ہے، لوکل لیول پر جوڑ توڑ کرکے الیکشن جیت جائیں گے اور عوام موجودہ حکومت کے خلاف ووٹ نہیں دیں گے۔ لیکن عوام نے عمران خان کے دور میں ضمنی انتخابات کے دوران 13 میں 11 بار اپوزیشن کے نمائندوں کو جتایا اور کل بھی 20 میں 15 اپوزیشن کے امیدوار سرخرو ہوئے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملکی اور معاشی حالات کے عوامی رائے پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ووٹر برادری سے بڑھ کر ایشوز پر ووٹ ڈالنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ پیچھے عوام نہیں، لیڈران ہیں۔

ان انتخابات سے بحران کم نہیں، مزید گہرا ہوگیا ہے۔ عمران خان جب وزیراعظم تھے تو بہت غیر مقبول ہو گئے تھے اور اس بار وزیراعظم بنے تو پہلے سے بھی زیادہ غیر مقبول ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں سرمایہ داری کا شدید بحران ہے جو جلد قحط اور بیروزگاری کے طوفان میں تبدیل ہوسکتا یے۔ امریکی جریدے اکانومسٹ کے مطابق روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں 25 کروڑ قحط سے متاثر ہوسکتے جبکہ مہنگائی اور قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے بہت سالوں تک ترقی ممکن نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں سرمایہ دار، جو آج 2700 ارب روپے سالانہ مراعات لے رہے ہیں، اس بحران کے اندر بھی اپنی جائیدادیں بچائیں گے کیونکہ کسی پارٹی میں یہ جرات نہیں کہ وہ لینڈ مافیا کو ہاتھ لگا سکے جبکہ اس بحران کا بوجھ غریب پر ہی ڈالا جائے گا۔ یعنی جو بھی اقتدار میں آئے گا اور سرمایہ داری کو بچانے کی کوشش کرے گا، وہ عوام اور تاریخ کی عدالت میں رسوا ہوگا۔

ان حالات میں اہم بات یہ ہے کہ اس خلا کو پر کرنے کے لئے ترقی پسند قوتیں عوام میں اپنا کام تیز کردیں۔ یہ بات ہمیں بھول جانی چاہئے کہ عوام ایک دم سے کھڑی ہوگی اور بائیں بازوں کی کسی چھوٹی تنظیم کی قیادت تسلیم کرلے گی۔ عرب سپرنگ سے لے کر سری لنکا تک ہر جگہ معلوم ہورہا ہے کہ عوام کا نکلنا کوئی بنیادی تبدیلی کی علامت نہیں اور عمومی طور پر کسی ابھار کا فائدہ مقبول اپوزیشن پارٹیوں یا منظم ریاستی تنظیموں کو ہوتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے یہ بیانیہ پاکستان کے بائیں بازوں میں مقبول ہے کیونکہ اس کے ذریعے یہ دلاسہ دیا جاتا ہے کہ ہم تھوڑے ہیں لیکن ایک دن عوام ہماری سچائی جان جائیں گے۔ لیکن عوام نے ابھی تک اس سچائی میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ یہ لاشعوری طور پر ایک شکست زدہ سوچ ہے جس نے ہمیں صرف تاریخ کا ایک بے بس تماشائی بننے پر مجبور کردیا ہے۔

اس سے بہت بہتر لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کے تجربات ہیں جنہوں نے 1990 کی دہائی سے تنظیم سازی کے عمل کو مضبوط کیا، تحریکوں کے ساتھ ساتھ تنظیم کو بنایا، اور سب سے اہم یہ کہ اپنے لائحہ عمل کو معروضی حالات کے مطابق مسلسل تبدیل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج حیرت انگیز طور پر لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک میں کئی ترقی پسند پارٹیاں امریکی مخالفت کے باوجود اقتدار میں آچکی ہیں، حتی کہ بولیویا اور ہوندورس میں فوجی بغاوتوں کو بھی ناکام بنا چکی ہیں۔ اس کے برعکس جو تنظیمیں نظریاتی پختگی کے نام پر عوامی سیاست سے خوف زدہ رہتی ہیں، وہ ابھار کے ٹائم پر بھی معاشرے میں کوئی بڑا رول ادا کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔

ان تمام ایشوز پر میں ایک تفصیلی وڈیو بناوں گا۔ لیکن اپنے مطالعے پر اگر نوجوان انقلابیوں کو ایک نصیحت کروں تو وہ یہ ہے کہ تھیوری کے ساتھ تاریخ ضرور پڑیں اور تنظیمی کام کے ساتھ کسی ورکنگ کلاس علاقے می ضرور کام کریں۔ چین کے عظیم انقلابی رہنما ماؤ زے تنگ نے بیس ایریا بنانے کی تلقین کی تھی جس میں انقلابی ایک متبادل قوت کو تعمیر کریں اور حالات سازگار ہونے پر اس کو مزید جگہوں پر مقبول کریں۔ اس کے پیچھے یہ سوچ تھی کہ اگر جنگ کے دوران انقلابیوں کے پاس کوئی علاقے نہ ہوئے تو دشمن انہیں ختم کردے گا۔

اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر لیفٹ کے پاس اپنا کام دکھانے کے لئے علاقے، فیکٹریاں یا کالج نہیں ہوں گے تو عام عوام متاثر نہیں ہوگی۔ کانگریسوں میں دانشور زیادہ دلچسپی لیتے ہیں لیکن عوام کے لئے ان کی اہمیت کم ہے۔ اسی لئے یورپ میں انقلابی گروپ کالجوں تک محدود ہیں حالانکہ ان کے دعوے دنیا بھر میں بیک وقت انقلاب برپا کرنے کے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر ضروری ہے کہ عوام میں کام کرنے کے دوران عوام کو سکھانے کے ساتھ ساتھ عوام سے سیکھیں۔ ہو سکتا ہے عوام اپنے دکھوں کو مذہب، قومیت یا ملکی سالمیت کے لبادے میں بیان کرے اور وہ کچھ لوگوں کو پسند نہ آئے لیکن ان کی باتوں میں کئی بار بہت حکمت چھپی ہوتی ہے۔ ہمیں سننے اور سمجھنے کے بھی نئے پیمانے تشکیل کرنے ہیں۔

یہ کام صبر آزما ہے اور اس میں سوشل میڈیا پر مشہور ہونے کے مواقع کم ہیں۔ لیکن اس کام سے گزرے بغیر ہم محض تجزیئے اور بھڑک بازی کے درمیان پھسے رہیں گے جبکہ رجعتی قوتیں عوام کی جعلی ترجمان بن کر انہیں تباہی کی طرف دھکیل دیں گی۔ فسطائیت سے لڑائی آج کے دور کی سب سے اہم لڑائی ہے اور صرف ایک عمل پسند اور عوام میں جڑیں رکھنا والا ترقی پسند گروہ ہی ہمیں فسطائیت سے بچا سکتا ہے۔

ڈاکٹر عمار علی جان ایک محقق اور سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے ۔مصنف حقوقِ خلق پارٹی سے منسلک ہیں۔