عمران خان شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا سکتے ہیں۔ لیکن فوجی مدد کے بغیر نہیں

عمران خان شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا سکتے ہیں۔ لیکن فوجی مدد کے بغیر نہیں
جب اپریل میں عمران خان کو بہت بے آبرو کر کے ایک عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اقتدار سے نکالا گیا تھا تو زیارہ تر سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ وہ اب دوبارہ کبھی پاکستان کے وزیر اعظم نہیں بن سکیں گے۔

لیکن گذشتہ ہفتے ان کی جماعت نے پنجاب میں حیران کن طور پر ایک ضمنی الیکشن میں 20 میں سے 15 نشستیں حاصل کیں اور اب سیاسی تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان ناصرف ایک جلد الیکشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ وہ اسے جیت بھی سکتے ہیں۔

پاکستانی ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارم نیا دور میڈیا کے چیف ایڈیٹر رضا رومی کا کہنا ہے کہ عمران خان کی اقتدار میں واپسی کو بعید از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا۔ وہ اس وقت اسٹیبلشمنت مخالف سیاست کی لہر پر سوار ہیں اور ان کے سیاسی حریف بمشکل اپنا دفاع کر رہے ہیں، جن کے پاس ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کا کوئی واضح ایجنڈا نہیں۔

ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کو ملک کے سب سے گنجان آباد صوبے پنجاب کی اسمبلی میں عددی برتری حاصل ہو گئی ہے۔ یہ صوبے میں حکومت بنانے کے قریب تھی لیکن جمعے کی شام اس کا یہ منصوبہ اس وقت ناکام ہو گیا جب یہ ایک اتحادی جماعت کے ساتھ وزارتِ اعلیٰ کے منصب کے لئے امیدوار پر مکمل اتفاق پیدا نہ کر پائی۔

فی الحال وزیر اعظم شہباز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (نواز) اپنے 40 سال سے گڑھ رہنے والے صوبہ پنجاب میں حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ صوبے میں اپنی حکومت قائم رکھنے کے لئے اسے وزارتِ اعلیٰ کا منصب کسی اتحادی جماعت کو دینا ہوگا۔ اس کی اتحادی جماعتیں جن کی تعداد 8 ہے اور یہ ایک دوسرے کی سیاسی حریف بھی ہیں صوبہ سندھ اور شروش زدہ بلوچستان میں حکمران ہیں جہاں بحریۂ عرب کے ساحل پر واقع شہر گوادر کی بندرگاہ چین کے زیرِ عمل ہے۔

شہباز شریف کی حکومت کو قومی اسمبلی میں ایک نحیف سی اکثریت حاصل ہے اور اگر یہ 9 اتحادی جماعتیں الیگ ہو گئیں تو یہ حکومت گر جائے گی – اور اس فیصلے کے لئے فوج کی صرف ایک فون کال کافی ہوگی۔

رضا رومی، جو کہ امریکہ میں واقع کارنیل یونیورسٹی میں لیکچرار بھی ہیں، کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ جس میں فوج کلیدی کردار رکھتی ہے ایک بڑی مشکل میں پھنس چکی ہے۔

"اگر یہ الیکشن کی طرف نہیں جاتی تو عمران خان مزید سیاسی عدم استحکام پیدا کرے گا اور اگر الیکشن کی طرف بڑھتی ہے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا معاشی بحران پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا"۔

'سرمایہ کار کچھ خوفزدہ ہیں'

مزید سیاسی عدم استحکام کے خدشات کے باعث سرمایہ کار پریشان ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ جلد انتخابات سے IMF کی طرف سے آنے والا معاشی پیکیج تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔

منگل کو کراچی سٹاک ایکسچینج 12 سال میں بدترین سطح تک گر گئی اور بدھ تک پاکستانی روپیہ اپنی 10 فیصد قدر کھو چکا تھا۔

حبیب یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر اقدس افضل کا کہنا ہے کہ سرمایہ کار ملک میں بڑھتے سیاسی عدم استحکام کے باعث کچھ خوفزدہ ہیں کیونکہ یہ عمران خان کے نکالے جانے کے بعد سے اب تک قابو میں نہیں آیا ہے۔

ان کے مطابق اپریل میں حکومت کی تبدیلی کے وقت بھی سیاسی عدم استحکام کا لوگوں کو اندازہ تھا، اس لئے سرمایہ کار ابھی panic نہیں کر رہے لیکن اگر جلد انتخابات کے اپنے مطالبے کو منوانے میں عمران خان کامیاب ہو گئے تو وہ اپنا بہت سا پیسہ کاروبار سے نکال لیں گے۔

"اگر انتخابات کا اعلان ہوا تو سرمایہ کار اور مارکیٹ کا ردِ عمل منفی ہوگا"، ڈاکٹر اقدس افضل نے کہا۔

پاکستان اور IMF 2019 میں عمران خان حکومت کے ساتھ ہوئے معاہدے کی اگلی قسط جاری کرنے کے لئے 13 جولائی کو سٹاف کی سطح پر معاملات طے کر چکے ہیں اور انہوں نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ اس پیکیج کی رقم ایک ارب ڈالر بڑھا کر 7 ارب ڈالر کر دی جائے۔

اس کے بغیر پاکستان تیزی سے دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کو IMF کا یہ مطالبہ تسلیم کرنا پڑا کہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے بلوں پر دی گئی چھوٹ ختم کی جائے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ جون تک مہنگائی کی شرح 24 فیصد تک پہنچ چکی تھی جس کے مقابلے میں PTI دور کی مہنگائی کی اوسط کم نظر آنے لگی۔

مسلم لیگ ن کا ماننا ہے کہ IMF کے دباؤ میں کی گئی معاشی اصلاحات گذشتہ اتوار ہوئے ضمنی الیکشن میں ان کی شکست کا باعث بنیں۔

ن لیگ کے قائد اور تین مرتبہ سابق وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے بھائی شہباز شریف جو اس وقت ملک کے وزیر اعظم ہیں، ان کے مطابق "ہمیں ان مشکل فیصلوں کی قیمت چکانا پڑی"۔

عمران خان اقتدار میں واپس کیسے آ سکتے ہیں؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی اقتدار میں واپسی کے لئے انہیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک مرتبہ پھر ادارے کی مکمل حمایت PTI کو دینے کے لئے قائل کرنا ہوگا۔

فوج نے پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں تقریباً آدھا عرصہ براہِ راست حکومت کی ہے اور 2008 میں جمہوریت کی بحالی کے باوجود ملک میں اقتدار کی اصل لگامیں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔

2018 انتخابات میں جنرل باجوہ ہی انٹیلیجنس اداروں کی سیاسی معاملات میں بھرپور مداخلت کے ذریعے عمران خان کو اقتدار میں لائے تھے۔

ان دونوں کے اختلافات اس وقت شروع ہوئے جب PTI ملک چلانے میں مکمل طور پر ناکام نظر آئی، جس سے فوج کو عوامی غیض و غضب کا نشانہ بننا پڑ رہا تھا، اور دوسری جانب عمران خان جنرل باجوہ کے امریکہ اور بھارت کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ بننے لگے۔

پنجاب کے ضمنی انتخابات کے لئے عمران خان کی انتھک مہم کے علاوہ ان کی جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم نے جنرل باجوہ اور ISI سربراہ لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کے خلاف ایسی بھرپور مہم چلائی جس کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

عمران خان نے فوجی قیادت پر اپنی حکومت گرانے کی امریکی سازش میں حصہ بننے کا الزام لگایا۔

جب یہ واضح ہو گیا کہ ان کا اقتدار میں رہنا ممکن نہیں، تو عمران خان نے یہ دعویٰ کر دیا کہ ان کی حکومت کو چند ہفتے قبل امریکہ میں پاکستانی سفیر اسد مجید کا ایک مراسلہ موصول ہوا تھا۔ اس مراسلے میں مبینہ طور پر سفیر نے وسطی اور جنوبی ایشیا کے لئے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری ڈانلڈ لو کی جانب سے دی گئی دھمکیوں کی تفصیل لکھی تھی۔

عمران خان کے دعوؤں کو امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے 'جھوٹ' قرار دیا تھا۔

عمران خان کا یہ دعویٰ بھی ISPR کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کی جانب سے 9 اپریل کو ان کی حکومت گرنے سے پہلے بھی مسترد کیا گیا تھا اور بعد میں بھی کہ جب عمران خان نے اس سازش کے 'ثبوت' آرمی چیف اور ISI سربراہ کو دکھائے تو انہوں نے بھی تسلیم کیا تھا کہ عمران خان کی سفیر کے مراسلے کی تشریح بالکل درست ہے۔

تاہم، رضا رومی کے مطابق، " عمران خان کے امریکہ کو انکار کرنے اور مغرب کی غلامی سے نجات دلانے جیسے ادھورے حقائق عوام میں مقبول ہو رہے ہیں"۔

اس دوران عمران خان اور ان کے ساتھی دیگر جرنیلوں کو مکھن لگا کر دوبارہ اپنا ساتھ دینے کے لئے مائل کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔

"کمزور فوج کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہوتی: ہماری فوج ہمارا بڑا اثاثہ ہے اور لیڈروں اور جرنیلوں کے لئے یو ٹرن لینا بہت ضروری ہوتا ہے"، عمران خان نے پنجاب کے ضمنی انتخابات سے ایک رات قبل ہفتے کو ایک تقریر میں کہا۔

"غلطیاں ہو جاتی ہیں، لیکن پھر انہیں ٹھیک کرنا چاہیے"، انہوں نے مزید کہا۔

رضا رومی کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اسٹیبشلمنٹ کے دونوں ستونوں یعنی فوج اور عدلیہ کو شدید دباؤ میں رکھنے کی ضرورت کو سمجھا ہے۔

عمران خان کی جذباتی تقاریر اور پی ٹی آئی کی ضمنی الیکشن میں شاندار واپسی کے باوجود تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فیصلے جنرل باجوہ کو ہی کرنے ہیں۔

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور ہُڈسن انسٹیٹیوٹ میں ادارہ برائے وسطی اور جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ "جنرل باجوہ جب تک آرمی چیف ہیں، ان کے پاس مکمل اختیارات ہیں۔ سیاسی شور و غل سے ان کے بارے میں تاثر خراب ہو سکتا ہے لیکن ان کے اختیار یا طاقت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی"۔

عمران خان موجودہ فوجی قیادت کے بارے میں یہ بیانیہ بنا سکتے ہیں کہ انہوں نے "امریکہ اور بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی خاطر مجھے نکال دیا"۔

"لیکن آگے چل کر فوج محض وہی کرے گی جو یہ اپنے ادارہ جاتی مفادات اور پاکستان کے مفاد میں بہتر سمجھے گی"۔

ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کی عوامی تقاریر ان کی مقبولیت میں اضافہ کر سکتی ہیں اور "انہیں دوبارہ وزیر اعظم بنا سکتی ہیں لیکن وہ پاکستان کو مشکلات سے نکالنے والے مسیحا نہیں ہو سکتے"۔

"بلکہ وہ شاید امیدیں آسمان پر لے جا کر انہیں پورا کرنے میں ناکام ہو کر پاکستان کو معاشی تباہی اور انارکی کی طرف دھکیلنے کا عمل تیز تر کر دیں"۔




ٹام حسین کی یہ رپورٹ ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ میں شائع ہوئی جسے نیا دور قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔

ٹام حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں۔ یہ وسطی اور جنوبی ایشیا کی کوریج کا 35 سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔