برطانیہ میں مقیم مسلمان رسوائی کی زندگی کیوں گزار رہے ہیں؟

برطانیہ میں مقیم مسلمان رسوائی کی زندگی کیوں گزار رہے ہیں؟
دنیا بھر میں اس وقت مسلمانوں کی تعداد 1 ارب 50 کروڑ سے زائد ہے، مسلم ممالک کی تعداد 56 کے قریب ہے۔ اسلام مسیحیت کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ دنیا بھر میں امیر مسلم ممالک بھی ایک بڑی تعداد میں آباد ہیں، جن میں سعودی عرب، خلیجی ممالک، ترکی، ملایشیا، انڈونیشیا اور ایک ایٹمی طاقت پاکستان شامل ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ غریب مسلم ممالک کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔

اقوام متحدہ کی طرز پر ایک بنائی ہوئی عالمی تنظیم او آئی سی جو 55 مسلم ممالک کی نمائندگی کرتی ہے وہ بھی موجود ہے مگر اسکے باوجود مسلمان عالمی سطح پر کوئی موثر اور مثبت کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں۔ ہماری وجہ شہرت اس وقت ایک دہشت گردی کو سپورٹ کرنے والوں کی کیوں ہے؟

پچھلے بیس سالوں میں دنیا بھر میں جس قدر بھی دشت گردی کے واقعات ہوئے ان میں مسلم دہشت گرد تنظمیں ملوث نکلی ہیں اگر برطانیہ کی مثال سامنے رکھی جائے تو برطانیہ کی آبادی اس وقت 6 کروڑ 80 لاکھ ہے جس میں جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 80 ہزار ہے جو آبادی کا 0.088 فی صد ہے، 10 لاکھ میں سے 167 افراد جیلوں میں بند ہیں۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی 35 لاکھ ہے جو کل ابادی کا 4،5 فی صد ہیں، اسلام مسیحیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے۔

محکمہ انصاف کے مطابق جیلوں میں مسیحی قیدیوں کی تعداد 35255 ہے جو افراد کسی عقیدے کو نہیں مانتے ان کے قیدیوں کی تعداد 2450 ، مسلمان قیدیوں کی تعداد 13724، بدھ مت کو مانے والوں کی تعداد 1606، سکھوں کی تعداد 538۔ یہودیوں کی تعداد 515 جبکہ ہندوں کی تعداد 341 ہے۔ اس طرح مسلمانوں کی تعداد کل قیدیوں کی 15 فی صد بنتی ہے

لندن جو برطانیہ کا سب سے بڑا شہر ہے وہاں مسلمانوں کی تعداد 14،4 فی صد ہے مگر جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد 27 فی صد ہے، 46 فی صد مسلمان برطانیہ کے دس پسماندہ ترین علاقوں میں رہتے ہیں جہاں وسائل کم اور غربت زیادہ ہے۔ ہر سو میں سے 19 مسلمان کام کرتے باقی کچھ نہیں کرتے جبکہ باقی برطانیہ میں سو میں 40 لوگ کام کرتے ہیں، 100 سے زائد خواتین بھی لندن کی جیلوں میں بند ہیں جو منشیات فروش تھیں۔

اس ساری صورتحال کے تناظر میں ایک بات سمجھنے کی یہ ہے کہ آخر مسلمانوں کے کیا نفسیاتی مسائل ہیں؟ لندن میں راقم الحروف کے قیام کو 10 ماہ ہو چکے ہیں، ایک بات جو میرے تجزیہ میں آئی ہے کہ وہ ادھر کے مسلمان دیگر مذاہب کے افراد سے گھل مل کر نہیں رہنا چاہتے، اپنے لباس اور حلیے کو ہر صورت میں دیگر مذاھب کے ماننے والوں سے مختلف رکھتے ہیں، اپنے مذہب کو سب سے افضل اور دوسرے مذاہبِ کو کمتر سمجھتے ہیں ،اگر مسلمانوں کو اپنے آپ کو قومی دھارے میں شامل کرنا ہے تو سب کے ساتھ مل کر چلنا ہو گا۔

او آئی سی کو بھی فعال کردار ادا کرنا ہو گا ،اسلامی فوبیا بھی ایک حقیقت ہے مگر جب تک آپ اپنا احتساب کر کے پوری دنیا کے ساتھ نہیں چلیں گے، معاملات بہتر نہیں ہوں گے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔