کرونا لاک ڈاؤن پی آئی اے کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتا ہے؟

کرونا لاک ڈاؤن پی آئی اے کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتا ہے؟
آج اگر ہم اس لاک ڈاون (Lockdown) کی وسعت نگاہ پر ایک تنقیدی جائزہ ملاحظہ فرمایں تو گویا یوں ہی لگتا ہے جیسے یہ کرونا وائرس (Corona Virus) کی وبا برگد کے درختوں کی شاخوں کی مانند ہمارے وجود میں جا کر پیوست ہو چکی ہے۔ ہم نہ چاہ کر بھی اس عالمی وبا سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ بالکل اسی طرح دیگر صنعتیں بھی کرونا کے زد میں آنے کے باعث، دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہیں۔ ایسے میں ہماری ایک صنعت طیارہ سازی اور فضائی سفر کی بھی ہے۔

IATA کے مطابق عالمی سطح پر طیارہ سازی کے شعبہ کو اس سال 314 ارب ڈالر کا خسارہ ہونے کا امکان ہے۔ فضائی شعبہ میں اب تک 2.5 ارب نوکریاں خطرے میں ہیں۔ یہ فضائی صنعت کی تاریخ میں سب سے بڑا خسارہ ہے۔ فضائی صنعت کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب دیگر بڑے ممالک نے مقامی اور بین الاقوامی پروازوں پر پابندی لگا دی۔

اگر پاکستانی فضائی صنعت کی  جانب ایک مرتبہ نظر دوڑائی جائے تو ادھر کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہم سب کی پسندیدہ پی آئی اے کا عام دنوں میں پرسان حال کوئی نہیں تھا، اب تو پھر پورا ملک کرونا کے ہاتھوں یرغمال بنا پڑا ہے۔ ہم سب کی چہیتی فضائی کمپنی ایک ایسے گڑھے میں گر چکی ہے، جہاں سے رہائی کا امکان اگلے کئی ماہ یا کئی سالوں تک نہیں۔ حیرت انگیز طریقے سے یہ گڑھا بھی اپنے ہاتھوں ہی کھودا گیا ہے۔

پی آئی اے کا ایک اور مسئلہ اس کا ضرورت سے بڑا عملہ ہے۔ محدود وسائل اور بجٹ کے باوجود اتنا بڑا عملہ رکھنا کسی حماقت سے کم نہیں۔ سنگاپور ائیرلائن سے اگر ہم پی آئی اے کا موازنہ کریں تو فرق واضح ہو جاتا ہے۔ بظاہر دونوں ائیرلائنز کا عملہ تعداد میں تو برابر ہے مگر پی آئی اے کے مقابلے میں سنگاپور ائیرلائنز کے پاس تقریباً 100 سے زائد طیارے موجود ہیں۔ اس بات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری ائیرلائن لاک ڈاؤن کے دوران کس قدر زوال پزیر ہو چکی ہے۔

یہ بھی خدشہ ہے کہ سعودی حکومت اس سال حج پر پابندی لگا دے گی، اس صورت میں سب سے زیادہ نقصان پی آئی اے کو ہی ہوگا۔ ہماری حکومت نے بروقت توجہ نہ دی تو یقیناً لاک ڈاؤن کی وجہ سے پی آئی اے کا دیوالیہ ہو جانا ہے۔

ثالث ملک اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے کالم نگار ہیں۔