کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
شاعر اعظم مرزا اسد اللہ خاں صاحب فرماتے ہیں ''بے خودی بے سبب نہیں غالب، کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک وکیل نعیم خان کی رٹ پٹیشن پر صرف 20 منٹ میں فیصلہ سنا دیا اور وزیراعظم عمران خان کو تاکید کی کہ قومی راز افشاء نہ کئے جائیں، جس دھمکی آمیز خط کا اپنے جلسے میں ذکر کیا تھا اس کو پبلک نہ کیا جائے۔

اس سے جلدی سستا اور فوری انصاف شاید وطن عزیز میں آج سے پہلے کبھی نظر نہیں آیا۔ جب وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد کے تاریخی جلسے میں خطاب کرتے ہوئے اس خط کا تذکرہ کیا اور جیب سے لہرا کر دکھایا تو متحدہ حزب اختلاف اور ان کے حامی صحافیوں نے خوب ٹھٹھا اڑایا اور کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان جھوٹ بول رہے۔ وہ اپنے جاتے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے یہ حربے استعمال کر رہے ہیں۔

تاہم اب اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے بعد وہ سب خاموش ہیں۔ آخر ہائی کورٹ جیسے ادارے کو ایک سیاستدان کے جھوٹ کا ساتھ دینے کی کیا ضرورت ہے۔ پاکستان کے طاقتور ترین حلقوں نے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

طاقتور حلقے کس کی طرف جاتے ہیں، یہ ہفتہ یا اتوار تک سب کے سامنے آ جائے گا مگر وہ اپنا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس وقت مقتدرہ خاموشی سے تماشہ دیکھتی رہی اور جو اراکین اسمبلی کا ہارس اینڈ کیٹل شو چل رہا تھا وہ پردہ کے پیچھے بیٹھ کر دیکھا گیا اور یوں محسوس ہونے لگا کہ وزیراعظم عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔

اس میں صرف ملکی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر معاملات چل رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہم کوئی آزاد خارجہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہم آج تک چچا سام کے تابع رہے اور ہماری حکمران اشرافیہ چچا سام کے من وسلویٰ کھانے کی اس قدر عادی ہو چکی ہے کہ ان کو وہ حکمران پسند نہیں آتا جو چچا سام کی طرف منہ نہ کرے۔ چاہے وہ ذوالفقار علی بھٹو ہو یا عمران خان۔

ان دونوں نے غلام قوم کو اپنا فیصلہ خود کرنے کی عادت ڈالنی چاہی مگر طاقت کے اصل مراکز نے دونوں کو سبق سکھایا۔ بھٹو صاحب جان سے چلے گئے اور آج عمران خان کا اقتدار اور جان دونوں خطرے میں پڑ گئے ہیں۔

کیا تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرانے جا رہی ہے؟ کیا ہم نے غلاموں کی طرح اپنی زنجیروں سے پیار ہی کرنا کہ اب ان کو توڑنے کا وقت آگیا ہے؟ یہ دو سے تین دن تک سب کے سامنے آ جائے گا۔

یہ مت بھولیں کہ صرف 20 منٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے جو حکم جاری کیا ہے وہ صرف ایک مفروضے نما مراسلے پر نہیں کیا۔ ہمارے بڑے بھائی پیر صاحب آستانہ عالیہ اپنی دوسری دستار بندی کے وقت ہی وزیراعظم سے ناراض ہو چکے تھے۔

رہی سہی کسر اہم ترین سراغ رساں ادارے کے سربراہ کی تقرری پر نکل گئی۔ ان دونوں معاملات پر سندھ اور پنجاب کی دو روایتی سیاسی جماعتوں نے پیر صاحب آستانہ عالیہ کا ساتھ دیا تھا۔ یہ جو سیاسی جنگ اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ اس کے پیچھے بھی میرے پیر صاحب کا ہاتھ ہے۔ ہفتہ اور اتوار کے دن تک فیصلہ ہو جائے گا کہ ہم نے ایک خوددار قوم بن کر اپنے فیصلے خود کرنے ییں یا یوں ہی غلاموں کی طرح رہنا ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔