کیا مریم نواز شریف حساب برابر کر پائیں گی؟

کیا مریم نواز شریف حساب برابر کر پائیں گی؟
مریم نواز شریف نے پہلے بھی ایک دفعہ اپنے بیانات میں احتساب نہیں، حساب مانگنے کا دعویٰ کیا تھا اور کل کے جلسے میں ایک بار پھر سے سارے حساب برابر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

جو بیٹی ماں کو بستر مرگ پر چھوڑ کر باپ کی انگلی تھامے جیل جا سکتی ہے۔ جو مردانہ وار تمام مشکلات اور بد اخلاقیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے عدالتوں کا سامنا کر سکتی ہے۔ بے یارو مددگار عوامی جلسوں کو گرما سکتی ہے۔ جماعت کو ختم کرنے کی دھمکیوں کے چیلنج کو شرمندہ کر سکتی ہے۔

جس کو عوام کی نبض شناسی اور مرض کی تشخیص کا ہنر آتا ہو۔ جو احتساب کی کال پر عوام کے طوفان کے سنگ پیشی کی مثال بنا سکتی ہے۔ جو مفاہمت کی سیاست کو مزاحمت سے جیت سکتی ہے۔ جو " ووٹ کو عزت دو" پر اپنے جان، مال اور آبرو کو قربان کرنے کی قربانی دے سکتی ہو۔ جو جان جانے کی دھمکی پر بھی نہ رکی ہو۔ باپ کو اپنے جزبہ ایمانی سے لاجواب کر دیا ہو۔ جس نے جماعت کے مشکل وقت کے اندر پورے ملک کے طول وعرض میں تن تنہا عوام اور ورکرز کے ساتھ کھڑے ہو کر مقبول ترین سیاستدان کا درجہ پا لیا ہو۔ جس نے انتخابات میں دن رات ایک کرکے کامیابی کو گلے لگا لیا ہو۔ وہ یقیناً حساب برابر کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہے۔

آج پاکستان نہیں پوری دنیا اس خاتون آہن کی سرگرمیوں کو بہت غور سے دیکھ رہی ہے اور اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کر رہی ہے۔ اس کی جارحانہ سیاست کو اگر اپنے بزرگوں کے ادب اور تعظیم کا سامنا نہ ہوتا تو شاید پاکستان کے سیاسی میدان کا درجہ حرارت کچھ اور ہوتا مگر اس کے سر پر ایک انتہائی مدبرانہ، حوصلہ مند اور گہری سوچ کا سایہ ہے جو اس کو ہر قدم پر رہنمائی مہیا کئے ہوئے ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ ہمیشہ قائم رہے۔

مریم جذباتی سیاست کا توڑ بھی ہے اور علاج بھی، موجودہ افراتفری کی سیاست میں مختلف حلقوں سے آوازیں نکلنا شروع ہو گئیں کہ اس طوفان بدتمیزی کا ایک ہی توڑ ہے اور وہ ہے مریم، جو عوام کو سمجھانے، بہلانے اور گرمانے کا ہنر جانتی ہے۔ اگر مسلم لیگ نے اس مدمقابل اکھڑ مزاج کا مقابلہ کرنا ہے تو وہ مریم ہی کر سکتی ہے۔

جب انتقامی سیاست کا تاثر دیتے احتساب نے سر اٹھایا تو اس نے جماعت کے کارکنوں کے ساتھ پیشی بھگتنے کا اعلان کیا تو پھر احتساب کا طوفان بھی تھم گیا اور اس کی طاقت کا اندازہ بھی جم گیا۔

مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ شروع میں انتقامی رہی ہے لیکن میثاق جمہوریت کے بعد انہوں نے انتہائی سنجیدہ سیاست کی ہے، جس کی بنا پر ان کو مُک مُکا کی سیاست کا طعنہ بھی دیا جاتا رہا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے انتہائی سنجیدہ سیاست کی مثال قائم کی اور وہ اس پر قائم بھی ہیں۔

میں نہیں سمجھتا کہ مریم نواز سیاست میں کوئی ایسا قدم اٹھائیں گی جس سے ملک میں بدنظمی کا خدشہ ہو اور جمہوریت کو نقصان ہو۔ وہ آئینی اور قانونی احتساب اور حساب کی بات کرتی رہیں گی جو ان کا حق بھی ہے اور پاکستان کی سیاست کا ایک روایتی رنگ بھی مگر وہ اس کی حساس حدود کو کبھی بھی کراس نہیں کریں گی اور نہ ہی اپنے سیاسی کیرئیر پر انتقام کا داغ لگنے دیں گی۔

ان کی جماعت کا سیاسی سرمایہ کارکردگی ہے اور انہوں نے ہر دور میں مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے اور یہی ان کا جماعتی اثاثہ ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس دفعہ جو ان کو موقع ملا ہے وہ صرف اور صرف ملک کی ابتر معاشی حالت کے تقاضے اور عالمی سطح پر ان پر کئے جانے والے اعتماد کی مجبوری کے پیش نظر ہے کہ ان کو حکومت سازی کے لئے برداشت کیا گیا ہے۔

یہ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ ایک کڑا امتحان سونپا گیا ہے اور شہباز شریف کی بہادری کو میں داد دیتا ہوں کہ انہوں نے رسک لیتے ہوئے یہ چیلنج قبول کیا ہے اور اپنی سیاست کو داؤ پر لگایا ہے۔ اگر تو وہ عوام کی غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف کچھ دینے میں کامیاب ہو گئے تو عوام کا ان پر اعتماد اور بھی بڑھ جائے گا اور اگر وہ خدانخواستہ، بدامنی کی سیاست کے ہاتھوں ٹریپ ہو کر ڈیلیور کرنے میں ناکام ہو گئے تو ان کی سابقہ کارکردگی کا کریڈٹ بھی ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔

لہذا میں سمجھتا ہوں کہ مریم نواز، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور دوسری اتحادی جماعتوں کو اس تذبذت والے ماحول کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جب انسان اقتدار میں ہوتا ہے تو اس وقت اس کی شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس سوچ اور کردار کا مالک ہے۔

انہی تحریک انصاف کو بھی ایک دفعہ پھر یہ دعوت دینی چاہیے کہ جو ہو گیا سو ہو گیا اور اب جب پاکستان کے ادارے بھی پاکستان کو صحیح جمہوری ریاست دیکھنا چاہتے ہیں تو کیوں نہ سب مل کر اپنی حکمت عملی سے تمام سازشوں کا پالیسی اور حکمت عملی سے مقابلہ کرتے ہوئے ملک و قوم کی فلاح کے لئے کام کیا جائے۔

ماضی میں تمام اتحادی جماعتیں بھی انتہائی کشیدگی کے ماحول سے گزری ہیں اور اب ملک وقوم کی ضرورت کے پیش نظر ایک ہو گئی ہیں تو پھر تحریک انصاف کیوں ان کا حصہ نہیں بن سکتی۔ حالانکہ تحریک انصاف کے قائد خود نواز شریف کے معترف رہے ہیں۔

پاکستان اس وقت نفرت، کشیدگی اور افراتفری کی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب وقت کی ضرورت ہے کہ تمام سیاسی قائدین میثاق جمہوریت ہی نہیں بلکہ میثاق معیشت بھی ترتیب دیں اور اس پر پکا اعادہ کریں کہ وہ اپنے ملک کو دنیا کی ایک مضبوط، مستحکم اور ترقی یافتہ ریاست بنائیں گے۔ اللہ سب کا حامی وناصر ہو۔