سمی بلوچ اور سچل نارو کی عید سڑکوں اور چوراہوں پر پلے کارڈز اٹھائے گزر گئی

سمی بلوچ اور سچل نارو کی عید سڑکوں اور چوراہوں پر پلے کارڈز اٹھائے گزر گئی
ایک ایسا چاند جس کے لیے مہینے کے آخری عشرے میں دھوم دھام سے انتظار کیا جائے۔ گھروں کے چھتوں سے لے کر گاؤں کے پُر فضا غروبِ آفتاب کے وقت بادلوں کی تہہ میں ایک چاند کے لیے ڈیرے ڈالے جاتے ہیں۔ دھکم پیل کیا جاتا ہے۔ ہر کوئی اپنی شہادتوں سے اپنی دید کی تعریف کے لیے محفلِ انتظار میں بحث اور خوشی لاتی ہے۔

ایک ہی دیس میں کسی بنام مفتی ایک دن پہلے چاند دیکھنے کی شہادتیں وصول کرتے ہوئے چاند رات مناتا ہے تو کوئی کل کی دوربین میں چاند دیکھنے کی ارادہ کرکے ایک اور روزہِ ثواب کو اگے بڑھاتا ہے۔ کل کا چاند بھی تو چاند رات لا سکتا ہے نا!

اس دیس میں ایک ایسی قوم بھی اپنی وجود رکھتی ہے جو روزے میں بھی چوراہوں پر دکھائی دیتی ہے۔ سڑکوں،کوچوں،گلیوں میں پلے کارڈ اٹھائے منظرِ عام پر آجاتی ہے۔ وہ منظر جسے سنسیٹب تو نہیں کہا جا سکتا البتہ میڈیا کی آزادیوں میں اسے سنسیٹب کا درجہ لازم دیا جاتا ہے۔

ایک ایسی قوم جو لاہور کی پنجاب یونیورسٹی کے داخلی دروازے پر راتیں گزارتی ہے۔ کوئٹہ کے پریس کلب پر گزرے دن تو ان گِنت ہیں۔ موسمی دباؤ کبھی کراچی لے جاتا ہے اور تو کبھی صاحبِ اقتدار تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک پر بیٹھاتی ہے۔ یہ قوم اسلام آباد کے پریس کلب کے سامنے لاٹھیاں بھی کھاتی ہے، تشدد کا سامنا بھی کرتی ہے اور پھر غداری کا پرچہ بھی کٹواتی ہے۔

یہ بے حسی کے سائے تلے،بے بسی کے عالم میں،مظلومیت کا ایک لمبی اور منفرد داستان کا مالک بلوچ ہے،سچل ہے!

بلوچ کا عید عقوبت خانوں میں پڑی ایک زندہ لاش ہے،قیدِ تنہائی میں بند کمرے کا وہ باریش مسلمان ہے جو کبھی ایک ہنستے مسکراتے مزاج کا مالک اور پُر امن شہری ہوا کرتا تھا۔

سچل کے پاپا جو سچل اور ان کی ماں کو دیکھ کر گئے تھے پر سچل انہیں نہیں دیکھ پایا۔ اس کے منہ پر رونق چہرا سچل کی حافظے میں صرف مدثر ہیں جو کبھی شمالی علاقہ جات سے لاپتہ ہوئے جو کبھی نہ لوٹے۔ یہ پریس کلب کے عقب کے دھرنے، یہ پلے کارڈ، یہ توانا آواز مدثر نارو سے ایک کلومیٹر دور ہی گونجتی ہیں۔ مدثر کے حافظے میں انکی بیوی شاید قید ہو لیکن ان کی ماں اپنی حافظے کے بوجھ سے سچل اور مدثر کو چھوڑ کے ابد ہو گئی۔ ایک دادی ہی جو سچل کے لیے مدثر نارو بھی ہیں اور ان کی ماں بھی۔

لاقانونیت کے سائے تلے خوف ہی منڈلاتا ہے،بے حسی اور بے بسی بھی،مظلومیت بھی اور ناامیدی کے چھوٹے بادل بھی۔

اب سوال یہ نہیں کہ سچل کا باپ سچل کے لیے کب لوٹے گا۔ سوال یہ ہونا چائیے کہ یہ قانون اور کتنے سچل کو یتیم کرے گا۔ اپنے باپ کے پیار سے یتیم،اپنی ماں کی جدائی سے یتیم!

سمّی دین کی بچپن یتیم ہو گئی، بچپن کے یاداشت صرف پلے کارڈ کے چند الفاظ تک محدود ہو گئی ہے۔ سمّی اب تو اپنی جوانی بھی لانگ مارچ،پریس کلب کے سامنے احتجاج اور دھرنوں میں گزار رہی ہے۔

اب خوف یہ ہونا چائیے کہ سچل کی زندگی کہاں گزرے گی۔ ہم عمر شہزادوں کے ساتھ کھیلنے میں یا اسلام آباد ہائیکورٹ میں؟

دونوں کے عید زندان کے کوٹھڑی میں ہیں اور دونوں اپنے چاند کا انتظار کر رہے ہیں۔ سچل کی چاند رات شاپنگ میں نہیں گزرتی اور نہ ہی سمّی کی مہندی لگانے میں۔

یہ عید بھی انہی چوک پہ گزارتے ہیں جو ان کے لیے ایک امید ہے، آواز ہے، آشنائی ہے، سکونت ہے۔ دونوں کے لیے عید بنا چاند کے آنسوؤں کا بازار ہے۔۔

سچل اور سمّی کے لرزتے ہونٹوں، نمی آنکھوں سے یہ کلمات عید کے ہر پل ادا ہوتے ہیں،اے چاند یہاں نہ نکلا کر!

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔