بدنامی کے ڈر سے خاموشی، آخر کب تک؟

بدنامی کے ڈر سے خاموشی، آخر کب تک؟
ہم ایک ایسی آزاد اسلامی ریاست میں سانس لے رہے ہیں جہاں معاشرے کے ہر فرد کو بنیادی حقوق میسر ہیں اور ان حقوق کی حق تلفی پر آواز اُٹھانے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ مگر جب عورت کے حقوق اور تحفظ کی بات کی جائے تو اسے، ایسے ہی نظر انداز کیا جاتا ہے جیسے معاشرت میں عورت کے وجود اور حیثیت کو۔ جبکہ ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ عورت معاشرے کی بنیادی اکائی ہے جس کی بدولت نسلیں پروان چڑتی ہیں۔

کسی بھی معاشرے کو بنانے اور بگاڑنے میں عورت اہم کردار ادا کرتی ہے تو اس کو وہ اہمیت کیوں نہیں دی جاتی جس کی وہ حقدار ہے۔ پاکستان میں تقریباً ہر روز ہزاروں خواتین گلی محلوں اور بازاروں میں آتے جاتے ہراسگی کا شکار ہوتی ہیں جسے خواتین اپنی بدنامی کے ڈر سے کسی کو بتانے سے گریز کرتی ہیں جس کے نتیجے میں اس طرح کی کاروائیوں میں دن بہ دن اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

ہمارے معاشرے میں عورت کی آزادی اور خود مختار کو بھی غلط رنگ دیا جاتا ہے۔ ملازم پیشہ خواتین کو تو نہ جانے کن کن القابات سے پکارا جاتا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہوں گی کہ دفاتر میں تعلیم یافتہ لوگ اور بہترین انتظامیہ ہونے کے باوجود ملازم پیشہ خواتین ہراسگی کا زیادہ شکار ہوتی ہیں جو ان کی ذہنی کیفیت کے ساتھ ساتھ ان کی نوکری کو بھی متاثر کرتی ہے۔

پاکستان میں 70 فیصد خواتین کو دوران ملازمت میں بھی ہراساں کیا جاتا ہے جو کہ معمول بن چکا ہے جسے زیادہ تر خواتین ملازمت چھوٹ جانے کے ڈر سے چپ چاپ سہہ جاتی ہیں۔

وائٹ ربن پاکستان کے مطابق 2004 سے 2016 کے درمیان پاکستان میں 4,734 خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور غیرت کے نام پر جرائم کے 15,000 سے زائد مقدمات درج کیے گئے۔ مزید برآں، ایک متواتر رپورٹ میں 2020 کے پہلے تین مہینوں میں پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں 200 فیصد اضافے کا انکشاف کیا گیا ہے۔

یہاں تک کہ قانون ساز اسمبلیاں جن میں خواتین کے حامی قوانین کی تقدیس ہوتی ہے وہ بھی روزمرہ کی جنس پرستی سے محفوظ نہیں ہیں۔ ساتھی خواتین کے ساتھ غیر اخلاقی روایہ ہمارے سیاست دانوں کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔

جنوری 2017 میں مسلم لیگ ق کی رہنما نصرت سحر عباسی اپنے دور ِحکومت میں اپوزیشن جماعتوں کے بعض مرد قانون سازوں کی طرف سے اکثر طنز ومزاح کا شکار ہوتی رہیں۔ بینظر بھٹو اپنے دورِ حکومت میں نواز شریف کی بدکلامی اور طنزیہ جملوں کا شکار بنتی رہی۔

اور ایسی بہت سی خواتین قانون سازوں کو نامناسب طنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا مقصد عوامی طور پر ان کی توہین کرنا ہے۔ جون 2016 میں اس وقت کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے پی ٹی آئی کی شیریں مزاری کو ’ٹریکٹر ٹرالی‘ کہا تھا۔ اپریل 2017 میں، پی پی پی کے خورشید شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر خواتین کو 'چالنے' سے روکا گیا تو وہ 'بیمار پڑ جائیں گی'۔ نومبر 2014 میں، جے یو آئی ایف کے فضل الرحمان نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کی خواتین حامی 'خراب کردار' کی حامل ہیں۔ اس رویے کی مذمت کرنے میں ناکام رہتے ہوئے، خواتین قانون ساز زیادہ تر مرد رہنماؤں کی طرف سے مذمت کے خوف سے اپنی جماعتوں کی حمایت کرتی ہیں۔

19 اپریل 2018 کو گلوکارہ اور اداکارہ میشا شفیع نے #MeToo Movement کے ذریعے خاموشی کے اس کلچر کو توڑنے کی کوشش کی اور ایک ٹویٹ کیا جس میں ایک ساتھی گلوکار اور اداکار علی ظفر پر ''جسمانی نوعیت کی جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا تھا "مگر افسوس کہ میشا شفیع کے اس عمل پر حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے حوصلہ شکنی کی گئی اور اس مقدمے کو بھی ہتکِ عزت کا مقدمہ بنا دیا گیا۔

حال ہی میں عمران خان صاحب نے اپنی تقریر میں مریم نواز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز نے اپنی گذشتہ تقریر میں اتنی دفعہ، اس جذبے اور اس جنون سے میرا نام لیا کہ میں اس سے کہنا چاہتا ہوں کہ مریم دیکھو تھوڑا دھیان کرو تمھارا خاوند ہی نہ ناراض ہو جائے جس طرح تم میرا نام لیتی ہو۔‘ میرے لیے عمران خان اور اس کے الفاظ پریشان کن نہیں تھے بلکہ جلسے میں موجود ہجوم کا وہ شور وہ تالیاں تھیں۔ میں سوچتی ہوں کہ ہمارے یہ نام نہاد سیاست دان ہماری نوجوان نسل کو کیا سبق پڑھا رہے ہیں کہ ایک خاتون کی تذلیل ان کیلئے خوشی و مسرت کا باعث بن رہی ہے۔

خواتین کی عزت میں ہی معاشرے کی ترقی کا راز چھپا ہے۔ جو معاشرے عورت کے عزت ووقار کو اہمیت دیتے ہیں اور انہیں شانہ بشانہ لے کر چلتے ہیں وہ کبھی ناکامی کا سامنا نہیں کرتے بلکہ زندگی کی ہر دوڑ میں کامیاب رہتے ہیں۔ خواتین کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ رکھنے کا یہ کلچر ہمارے سیاست دانوں سے ختم ہونا چاہیے کیونکہ ہماری نوجوان نسل ان کی بہت بڑی پیروکار ہے۔