ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میں خونی سیلاب اور 16 سال سے بغیر بھل صفائی کے برساتی نالے

ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میں خونی سیلاب اور 16 سال سے بغیر بھل صفائی کے برساتی نالے
ڈی آئی خان ڈویژن میں سیلابی ریلوں نے ہزاروں گھر اجاڑ دیے، اب تک 27 لوگ جاں بحق اور 42 زخمی ہوئے ہیں۔ جون 2022 سے 22 اگست تک مون سون بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب نے 2010 سیلاب سے کہیں زیادہ گہرے نقوش چھوڑ دیے ہیں۔ ڈی آئی خان ڈویژنل پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی معلومات کے مطابق صرف اگست کے مہینے میں سیلابی ریلوں سے ضلع ڈی آئی خان میں 10 لوگ جاں بحق جبکہ 22 افراد زخمی ہوئے، جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھا اور سرا روغا میں 9 افراد جانبحق جبکہ ضلع ٹانک میں ایک شخص زخمی ہوا ہے۔



19 اگست کے سیلابی ریلے نے ایسے ہستے بستے گھربھی اجاڑ دیے جنہوں نے کھبی سوچا بھی نہیں تھا کہ اُنہیں ایسی آفت کا سامنا ہوگا۔ پروا تحصیل ہزارہ پکہ کے رہنے والے 30 سالہ تیمور بلوچ نے اُس خوفناک رات کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ پورے گاؤں میں کہرام مچا ہوا تھا، جب رات 11 بجے گھروں میں پانی داخل ہوا تو سب لوگ اپنے خاندان کو محفوظ جگہ پر لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ تیمور نے بتایا کہ اُنہیں ہزارہ نالے جن کو رودکوہی سکیمز کے نالہ بھی کہا جاتا ہے کے پھٹنے کا اندیشہ تھا، لیکن یہ نالہ اتنی شدت سے گاؤں کے گاؤں بہا کر لے جائیگا یہ کسی کے علم میں نہیں تھا۔



تیمور نے بتایا کہ پروا تحصیل کے شمالی اور جنوبی اطراف میں دو بڑے پانی کے نالے ہزارہ پکہ اور مکڑ نالوں میں سالوں سے صفائی نہیں ہوئی جس کے بندھ پھٹنے سے تحصیل پروا ڈوب گیا۔ تیمور نے بتایا کہ لوگ اب بھی امداد کے منتظر ہیں گھروں میں تاحال پانی کھڑا ہے، لوگوں کو ابھی تک کوئی امداد نہیں ملی۔ تحصیل پروا کے گاؤں ہزارہ پکہ، چاہ گاڈی، چاہ شیخ، کچہ ہزارہ، ببر پکہ، بستی دیسی، جھوک جھنڈیر، جھوک ماچھی شرقی اور غربی سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

ڈی آئی خان ڈویژنل پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے رپورٹنگ افیسر فہیم خان نے بتایا کہ 2010 سیلاب کی نسبت ڈیرہ ڈویژن میں یہ ایک بڑا سیلاب تھا، اور مزید بھی تباہی کر سکتی ہے۔



پی ڈی ایم اے کے مطابق جون میں مون سون بارشوں سے 22 اگست تک ڈیرہ ڈویژن میں اب تک 27 لوگ جاں بحق جن میں 13 ضلع ڈی آئی خان میں، 12 جنوبی وزیرستان کےعلاقوں میں اور2 افراد ضلع ٹانک میں جاں بحق ہوئے، یاد رہے کہ ضلع ٹانک میں مقامی میڈیا کی رپورٹس سے مرنے والوں کی تعداد 5 بتائی جا رہی ہیں جبکہ ڈویژن میں کُل 42 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

محکمے کے مطابق ڈویژن میں 6332 گھرمکمل طور پر تباہ جبکہ 3235 کوجزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ ڈویژن میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے امدادی کاروائیاں جاری ہیں۔ ڈی آئی خان کے ڈپٹی کمشنر نصر اللہ خان نے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا کہ انتظامیہ نے 06 امدادی کیمپ قائم کیے ہیں اور امدادی کاروائیاں جاری ہیں۔



خیبر پختونخوا میں مون سون بارشیں

خیبر پختونخوا محکمہ موسمیات کے ریکارڈ کےمطابق پھچلے دو سالوں میں ریکارڈ کم بارشیں ہوئی ہیں، صوبے میں پھچلے سال دسمبر میں انتہائی کم بارشیں ہوئیں، محکمے کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر فہیم نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں کلائیمیٹ چینج کی بدولت بارشوں نے اپنے اوقات اور مرکز تبدیل کیا ہے، 2010 کے مون سون میں پورے صوبے میں بارشیں ہوئی تھی لیکن اس سال بعض جگہوں پر کم اور کچھ جگہوں میں زیادہ بارشیں ریکارڈ ہوئی۔



ڈاکٹر فہیم نے بتایا کہ اگست میں ڈیرہ ڈویژن میں 94 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی ہے، ڈیرہ ڈویژن میں اوسط بارش 74 ملی میٹر ہوتی ہے، دیکھا جائے تو یہ اتنا بڑا فرق نہیں ہے۔ موجودہ سیلاب کے حوالے سے اُنہوں نے کہا خیبر پختونخوا میں بارشیں زیادہ ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے لیکن پولوشن کی وجہ سے برساتی نالے بند ہو جانے اور اربانائیزیشن کی وجہ سے مون سون بارش کا پانی سیلاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ڈاکٹر فہیم نے عالمی درجہ حرارت کے زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان سمیت پوری دنیا شدید موسمی واقعیات کی ذد میں ہے۔

ڈیرہ ڈویژن میں سیلاب کیوں آیا؟

ضلع ڈیرہ اسماعیل خان دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر آباد ہے، 2017 ریکارڈ کے مطابق ضلع کی آبادی 1627132 ہے، ضلع کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے، اور یہاں دریائے سندھ کے علاوہ پہاڑ پور کی نہر ہے جو چشمہ بیراج سے شروع ہوکر دامان کے علاقوں تک راستے میں چھوٹے نالوں سے لوگ فصلیں سیراب کرتے ہیں۔



ڈٰی آئی خان ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق چشمہ رائٹ بینک کینال (سی آر بی سی) ایک بڑا پراجیکٹ ہے جو 1984 میں شروع ہوا ہے اور اس پر کام جاری ہے، یہ منصوبہ خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب کے علاقوں کو سیراب کریگا۔ ڈی آئی خان میں پروا تحصیل کے شمالی اور جنوبی اطراف میں دو بڑے پانی کے نالے ہزارہ پکہ اور مکڑ سمیت 5 بڑے برساتی نالے واپڈا کے زیر انتظام ہیں۔ ان نالوں کی 2006 سے صفائی نہیں ہوئی، جب اریگیشن محکمے سے بھل صفائی کے نا ہونے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ اب بھی واپڈا کے زیر اثر ہیں۔ ان نالوں کی صفائی کے حوالے سے جب ڈی آئی خان واپڈا سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے معلومات دینے سے انکار کیا۔



ڈیرہ ڈویژن میں ضلع ٹانک کی بھی کچھ ایسی حالت ہے، انگریزوں نے ٹانک کو تینک یعنی پانی کی ٹینک کا نام دیا تھا جو بعد میں ضلع ٹانک بن گیا، ضلع کا 80 فیصد حصہ بارانی ہے اور یہاں 6 بڑے برساتی نالے ہیں جن میں ایک کے کنارے پائی یونین کونسل آباد ہے جو جولائی اور جون میں سیلاب کی ذد میں تھا۔



ضلع ٹانک کے سیاسی کارکن عمیر کنڈی نے اس حوالے سے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ ان نالوں کی صفائی نہیں کرتے اور یہی بنیادی وجہ ہے کہ پائی میں سیلاب آیا اور 600 کے قریب گھر مکمل تباہ ہوئے۔ عمیر کنڈی نے بتایا کہ ہر سال پائی یونین کونسل کے لوگ سیلاب ک ذد میں ہیں لیکن متعلقہ ادارے خاموش ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی اور شدید موسمی واقعیات میں اضافہ

اقوام متحدہ کی کلائمیٹ کیلئے مختص ادارے انٹر گورمنٹل پینل آن کلائیمیٹ چینج (آئی پی سی سی) کی حالیہ رپورٹس میں پوری دنیا کے پالیسی سازوں کوواضح تنبیح دی گئی تھی کہ دنیا کو کلائمیٹ چینج کی وجہ سے شدید موسمی واقعیات کا سامنا ہو سکتا ہے، اس سال شایع ہونے والی رپورٹ میں ایشیا میں سیلاب اور خشک سالی کا زکر بھی موجود ہے، لیکن پاکستان میں اس حوالے کوئی بھی خاطر خوا پالیسیاں موجود نہیں ہے۔



خیبر پختونخوا محکمہ موسمیات کے مطابق کلائمیٹ چینج کی وجہ سے صوبہ شدید مشکلات سے دوچار ہے، دو سالوں میں کم بارشیں ہونا، پہاڑوں پر برف پگلنا، برف باری نا ہونا اور موسم کا گرم ہونا مستقبل میں شدید موسمی واقعیات میں اضافہ کی نشاندہی کرتا ہے۔

ڈیرہ ڈویژن میں مون سون کی بارشیں اپنی جگہ لیکن پروا تحصیل ہزارہ پکہ کے تیمور بلوچ نے بتایا کہ اگر حکومت نے برساتی نالوں کی صفائی کی ہوتی تو آج ہمارا گاؤں اس حال میں نہیں ہوتا۔

آصف مہمند کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے۔ وہ ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہیں اور کلائمیٹ چینج اور دیگر ماحولیاتی موضوعات سے متعلق لکھتے ہیں۔