سمّی کے والد کو لاپتہ ہوئے 13 سال بیت گئے، ان کا درد کون سمجھے گا؟

سمّی کے والد کو لاپتہ ہوئے 13 سال بیت گئے، ان کا درد کون سمجھے گا؟
سمّی کے آئے روز کے احتجاجوں، دھرنوں اور سخت سردیوں میں ریڈ زون کے سامنے کیمپ لگانے کے احوال کا تو سب ہی کو پتا ہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ بلوچستان پہ حکمرانی کرنے والے وزرائے اعلیٰ کو نہ اب تک سمّی بلوچ کا پتا چلا اور نہ ہی اس کے درد کا۔

نا جانے سمّی کتنی بار لاپتہ افراد کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سامنے پیش ہوئی ہوں گی، کتنے آنسو بہا چکی ہوں گی، درد و کرب کو کس کس انداز میں بیان کر چکی ہوں گی لیکن ان 13 سالوں میں سمّی کو بدتمیزی کا سامنا کرنے کے سوا کچھ نہیں ملا۔ ان 13 سالوں میں سمّی کے والد کی رہائی تو کجا ان کی ایک پل کی جھلک بھی یہ کمیشن سمّی کو نہ دکھا سکے۔

سمّی نے اپنے والد کی جبری گمشدگی اور خاندان کا کرب عمران خان کو سنایا تو تب کے وزیر اعظم عمران خان نے ان کی رہائی کے لیے کردار ادا کرنے کا وعدہ کیا لیکن سال گزر گئے تو عمران خان کی کابینہ کے وزیر علی زیدی لاپتہ افراد کا مذاق اڑانے چل نکلے۔

شہباز شریف حکمران بن گئے اور کوئٹہ میں اپنے خطاب میں لاپتہ افراد کے مسئلے کو سنگین سمجھ کے سرکاری سطح پہ نہ صرف تصدیق کر رہے تھے بلکہ اس کے حل کے لیے کوشاں بھی تھے۔
لیکن مہینوں بعد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ لاپتہ افراد کے معاملے کو جھوٹ قرار دے رہے تھے۔ پھر یہی وزیر قانون و وفاقی و زیر داخلہ سمّی دین سے ملنے سمّی کی دھرنا گاہ یعنی ریڈ زون بلوچستان چلے آئے اور مذاکرات کرنے کے بعد چلے گئے۔

پھر ٹوئیٹر والوں نے دیکھا کہ رانا ثنا اللہ لاپتہ افراد کے مسئلے پر بے بسی کا اظہار کر رہے تھے۔ صحافیوں کے پوچھنے پر نہ صرف برس پڑے بلکہ لا علمی کا اظہار بھی کیا۔

اب عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں سمّی کو بطور سپیکر مدعو کیا گیا۔ انہیں سمّی کا بھی پتا ہے اور ان کی جہدوجہد کا بھی۔ لیکن سمّی 'بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی' سمجھ کے اسٹیج پہ آئیں تو چند ہی منٹوں بعد تھینک یو کرا کے مائیک ان سے واپس لے لیا گیا۔

بس پوچھنا یہ ہے کہ سمّی کے ساتھ وزیر اعظموں سے لے کر کمیشنز و انسانی حقوق کے دعویداروں تک سبھی ایک جیسا سلوک کیوں روا رکھتے ہیں باوجود اس کے کہ وہ سمّی کو بھی جانتے ہیں اور ان کے کرب و درد کو بھی۔

اگر سمّی کو مائیک نہیں دے سکتے، انہیں سن نہیں سکتے، ان کے مسئلے کو حل نہیں کر سکتے تو سمّی کو بلاتے کیوں ہو؟

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔