جنس، صنف، ٹرانس جینڈر بل اور پاکستانی عوام میں تشویش

جنس، صنف، ٹرانس جینڈر بل اور پاکستانی عوام میں تشویش
جنس ( سیکس) اور صِنف ( جینڈر) کئی دھائیوں سے اور کی مقامات پر آج تک متبادل طور پر استعمال ہونے والے الفاظ ہیں لیکن درحقیقت دونوں الفاظ دو الگ معنی رکھتے ہیں۔ آئیے اس پر تھوڑی سی نظر ڈال لیں۔

امریکن سائیکیٹرکٹ ایسوسی ایشن (APA) جو کہ دنیا کا سب سے بڑا نفسیاتی ادارہ ہے، جنس ( سیکس) اور صنف ( جینڈر) کی تشریح اس طرح کرتا ہے۔

" صنف ( جینڈر) سے مراد وہ احساسات اور رویے ہیں جو ایک دی گئی ثقافت کے مطابق کسی شخص کی جنس ( سیکس) کے ساتھ منسلک کرتی ہے." اور اسی طرح " جنس ( سیکس) سے مراد وہ جسمانی اعضاء جو مردوں اور عورتوں میں فرق کرتی ہیں۔ جنس سے مراد خاص طور پر جسمانی اور حیاتیاتی ہے، جبکہ صنف ( جینڈر) سے مراد خاص طور پر سماجی یا ثقافتی خصلتیں ہیں۔"

لہذاء عام زبان میں ایسے کہا جا سکتا ہے کہ جنس کا تعین انسان کا عضو تناسل اور صنف کا فیصلہ انسان کا ذہنی ادراک کرتا ہے۔ بدقسمتی سے دونوں اصطلاحات کے درمیان فرق کو باقاعدگی سے نہیں دیکھا جاتا ہے اور اسی وجہ بہت سے نفسیاتی اور جنسی مسائل اور بیماریاں جنم لیتی ہیں اور بغیر تشخیص کئے رہ جاتی ہیں۔ ایک بات یہاں بتانا بہت لازمی ہے کہ امریکن سائیکیٹرکٹ ایسوسی ایشن کی جنس اور صنف کی یہ تشریحات عالمی ادارہ صحت اور ورلڈ سائیکاٹرسٹ ایسوسی ایشن سے تصدیق شدہ ہیں اور دنیا کے تمام رجسٹرڈ ڈاکٹر حضرات اس پر متفق ہونے کے ویسے ہی پابند ہیں جیسے باقی تشخیصات اور تشریحات پر۔

اب ایک سرسری سی نظر، قابل ذِکر لفظ " جینڈر ڈسفوریا" پر ڈالتے ہیں۔ امریکن سائیکیٹرکٹ ایسوسی ایشن کی ہی تشریح کے مطابق " جینڈر ڈسفوریا ایسی نفسیاتی پریشانی یا بے چینی ہے جو پیدائش کے وقت تفویض کردہ کسی کی جنس اور کسی کی صنفی شناخت کے درمیان تضاد کے نتیجے میں ہوتی ہے"۔ اگرچہ جینڈر ڈسفوریا اکثر بچپن میں شروع ہوتا ہے، لیکن کچھ لوگوں کو بلوغت کے بعد یا بہت بعد تک اس کا تجربہ نہیں ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ایک اور قابل ذِکر لفظ "ٹرانس جینڈر" سے مراد وہ شخص ہے جس کی پیدائش کے وقت تفویض کردہ جنس (یعنی پیدائش کے وقت ڈاکٹر کی طرف سے تفویض کردہ جِنس، جو کہ عام طور پر بیرونی اعضا تناسل پر مبنی ہوتی ہے) ان کی صنفی شناخت سے میل نہیں کھاتی۔

جینڈر ڈسفوریا مختلف افراد میں مختلف شِدت سے نمودار ہوتا ہےـ شِدت اتنی کم بھی ہو سکتی ہے کہ نفسیاتی معالج کے کچھ سیشن اس حالت کو کچھ عرصے کے لیے کنٹرول کر سکتے ہیں اور شِدت اس قدر زیادہ بھی ہو سکتی ہے کہ نفسیاتی معالج فوراً جِنس درستگی کے آپریشن کے لیے کاسمیٹک سرجن یا جنرل سرجن کے پاس ریفر کر دیتے ہیں جو اس شخص کی وجائنو پلاسٹی کا آپریشن کرکے اس کو عورت کا جنس دوبارہ تفویض کر دیتے ہیں یا دوسری صورت حال میں مریض کی فیلوپلاسٹی کر کے اس کو مرد کا جنس دوبارہ تفویض کر دیا جاتا ہے۔

یہاں یہ بات لازمی یاد رکھنا ضروری ہے کہ جینڈر ڈسفوریا سے متاثر ہر شخص کو جنس درستگی کے آپریشن کی ضرورت نہیں پڑتی، بیشتر کیسوں میں صنف جس طرف مائل ہوتی ہے اس لحاظ سے زندگی کو ڈھال لینے سے یا کچھ کیسز میں مطلوبہ صنف کی ہارمونل تھیراپی کے ذریعے جینڈر ڈسفوریا پر قابو پا لیا جاتا ہے لیکن جہاں جنس درستگی کے آپریشن کی ضرورت لاگو ہو وہاں اس آپرشن سے اجتناب کرنے سے جینڈر ڈسفوریا سے متاثرہ شخص پرتشدد رویہ اختیار کر جاتے ہیں اور بیشتر خود کشی کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ سیریس پبلشنگ کی تحقیق کے مطابق ایسے افراد میں خود کشی کا رُجحان تیس فیصد تک ہوتا ہے جو کہ خود کشی کی باقی وجوہات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

اب ایک نظر پاکستان میں بسنے والے لاکھوں کی تعداد میں خواجہ سرا افراد کی طرف ڈالتے ہیں۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہی خواجہ سرا افراد ماضی میں عثمانیہ، مغلیہ اور صفوید سلطنتوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائض رہے۔ اس وقت کے علما کی منظوری پر انہیں شاہی خواتین کے احرام کی خدمت پر مامور کیا گیا۔

شاید اس زمانے کے سماجی لائحہ عمل بنانے والے اور دینی کارکنان کا جنس ( سیکس) اور صِنف ( جینڈر) کے موضوع پر علِم آج کے مقابلے میں بہت زیادہ تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ تب کے دینی علما نے خواتین کا پردہ خواجہ سرا افراد سے ممنوع قرار دیا۔

جاننا ضروری یہ ہے کہ یہ خواجہ سرا افراد کون تھے؟ آج بھی ہمارے معاشرے میں راہ چلتے خواجہ سرا کی بد دُعا سے ہر کوئی ڈرتا ہے۔ آج بھی لوگ جنس اور صنف میں فرق جانے بغیر خواجہ سرائوں کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ ان کو اللہ نے ایسا بنایا لہذا ان آزمائش زدہ افراد کی بد دُعا سے بچنا چاہیے۔

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ "اللہ نے ایسا بنایا" تو ہمارا ذھن فوراً ایسے افراد کے جنسی اعضا کی طرف راغب ہوتا ہے. اور عموماً ان تمام خواجہ سراؤں کو "انٹر سیکس" سمجھا جاتا ہے لیکن درحقیقت خواجہ سراؤں کے لیے لفظ " ٹرانس جینڈر " ہی صحیح تشریح ہے۔ صدیوں سے دبے ایسے افراد اب ایک کمیونٹی کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور اس معاشرے سے پوشیدہ کمیونٹی میں رہ کر اپنی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔

زمانے کی جدت کے ساتھ اور گھریلو قبولیت کی بنا پر کچھ ٹرانس جینڈر افراد اس کمیونٹی کا حصہ نہیں بنتے اور اپنے آپ لئے صرف لفظ خواجہ سرا کی بجائے "ٹرانس جینڈر" یا "مُتجنس"  استعمال کرتے ہیں۔

میڈی پلس ادارے کی آسان تشریح کے مطابق "انٹر سیکس ایک ایسی اصطلاح کا نام ہے جو مختلف حالتوں کے لئے استعمال ہوتی ہے جس میں ایک شخص ایسی جنسی اناٹومی (ساخت) کے ساتھ پیدا ہوتا ہے جو "عورت" یا "مرد" کے خانوں میں فٹ نہیں ہوتی"۔

دنیا کی تقریباً پانچ فیصد آبادی انٹر سیکس ہے اور ایک ریسرچ کے مطابق اکاسی فیصد انٹر سیکس افراد کی صنفی شناخت کے مطابق ان کو جنس درستگی کے آپریشن کے عمل سے گزارنے کے بعد انہیں عام مرد یا عورت کے طور پر زندگی گزارنے دیا جاتا ہے۔ ایک بات قابل غور یہاں یہ ہے کہ انٹر سیکس فرد کی بھی صنفی شناخت کے مطابق ہی اس کو جنس درستگی کے آپریشن کے عمل گزارا جاتا ہے۔

امید ہے کہ اب تک جینڈر ڈسفوریا، جِنس ( سیکس) اور صِنف ( جینڈر) کا فرق، ٹرانس جینڈر اور انٹر سیکس کا فرق اور مشابہت آپ کو کچھ حد تک سمجھ آ چکی ہو گی۔ اگر کوئی کثر ہے تو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں ہر انسان کی رسائی ہر طرح کی معلومات تک ہے۔ یہ ساری معلومات تحقیق اور تصدیق شدہ ہیں آپ بلا جھجک خود بھی تحقیق کر سکتے ھیں۔

ایک آخری بات، ہم نے انٹرنیٹ کی فروانیت کے ساتھ بے تحاشا مغربی الفاظ سن کر ان کو اپنی عقل کے مطابق اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی ہے، جیسے لفظ " Gay" یا لفظ "ہومو سیکشوئل" (ہم جنس پرست) ان الفاظ کو تقویت انگریز کے سامراجی نظام میں ملی۔

لفظ " Gay" یا  لفظ "ہوومو سیکشوئل" سے مراد ایسے مرد یا خواتین ہیں جو کسی جینڈر ڈسفوریا ، یا ٹرانس جینڈر اور انٹر سیکس کے سانچے میں ڈھالے بنا اپنی پیدائشی جنس اور صنف سے مطمئن ہوتے ہیں، البتہ اُن کی جنسی رغبت اور خواہشات اپنی ہی جنس سے تعلق رکھنے والے افراد سے جڑی ہوتی ہیں۔ اب جنسی رغبت اور خواہشات تو ہر انسان کی منفرد ہوتی ہیں لیکن یہاں ایک بات کا موازانہ کرنا بہت ضروری ہے کہ کیا ایسے افراد جو جینڈر ڈسفوریا کی آزمائش سے گزر رہے ہوں اور اپنی صحیح جنس کی جستجو کی جنگ لڑ رہے ہوں اُن کو Gay یا ہومو سیکشوئل کہنا نا صرف بے عقلی ہے بلکہ درحقیقت ظُلم ہے یا ایسے افراد جو اپنے آپ کو مرد یا عورت تسلیم کرتے ہیں اور اپنی پیدائشی جنسی اور ِنفی شناخت سے مطمئن ہیں کو ٹرانس جینڈر، خواجہ سرا یا مُتجنس کہنا دُرست ہے کیا ؟ یہ فیصلہ آپ خود کریں۔

شاید یہ بات آنے والے ادوار میں خلافتوں کے دور میں لوگوں کو سمجھ آ گئی تھیں، شاید یہ فرق آج کی اقوام جن میں ایران، مصر اور تُرکی شامل ہیں کو سمجھ آ چکا ہے تبھی اِن ملکوں میں جینڈر ڈسفوریا سے متاثر ٹرانس جینڈر افراد کو سرکاری امداد کے ذریعے خود کی تشخیص شدہ صنفی شناخت کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع دیا جاتا ہے۔

اسلامی نقطہ نظر سے بھی یہ بات واضح ہو چکی ہے اور اب ٹرانس جینڈرز کا ناصرف صنفی تشخص مانا گیا بلکہ ان کو اصلی صنفی شناخت کو اختیار کرنے اور ان کیلئے درکار تمام پروسیجرز کی بھی اجازت دی گئی ہے۔

سنی مسلک کے نامور عالم اور مصر کے اپنے وقت کے مفتی اعظم اور جامعہ الاازہر کے شیخ محمد حسن تنتاوی نے 1988ء جبکہ شیعہ مسلک کے نامور روحانی و علمی شخصیت امام خمینی نے 1986ء میں ٹرانس جینڈر شخصیات کو صنفی شناخت کو اپنانے کے حق میں واضح فتوے دیئے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے لوگ اس مسئلے کے بنیاد کو جاننے بنا کبھی ان کو ہم جنس پرست تو کبھی صنفی شناخت اپنانے کے بنیاد پرخالق کے خلاف بغاوت قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ اگر دین اسلام کے فطرت اور اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہی لوگ اپنی باتوں پہ شرمسار ہو جائیں۔ اب فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔