پانچ جولائی کو ریڈیو پاکستان نے مارشل لا کی خبر کیسے دی؟

پانچ جولائی کو ریڈیو پاکستان نے مارشل لا کی خبر کیسے دی؟
کئی دہائیاں گزرنے کے بعد جب میں ریڈیو پاکستان کا سربراہ بنا تو تاریخ اور سیاست کے طالبعلم ہونے کے ناتے میں نے پرانے کاغذات نکلوائے اور پرانے لوگوں سے بات کی۔ مارشل لا کے نفاذ کے وقت ریڈیو پاکستان کے سربراہ اجلال حیدر زیدی حیات تھے۔ ان کا تفصیلی انٹرویو میں نے خود کیا۔ زیدی صاحب سے گفتگو سے جو تفصیلات سامنے آئیں وہ بہت ہی دلچسپ ہیں۔

پانچ جولائی کی صبح سویرے فوجی ٹرک 303 پشاور روڈ، راولپنڈی پہنچا۔ اس وقت ریڈیو پاکستان اسلام آباد اسٹوڈیو بھی وہیں تھا۔ شاہراہ جمہوریت اور شاہراہ دستور کے سنگم پر موجود عمارت جس کا سنگ بنیاد بھی شھید بھٹو نے رکھا تھا ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔

فوجی ٹرک کے ساتھ ایک فوجی افسر اور سکریٹری اطلاعات مسعود نبی نور بھی تھے۔ ابھی ریڈیو کی صبح کی شفٹ کے لوگ آنا شروع ہوئے تھے۔ فوجی افسر نے کاغذ کا ایک ٹکڑا لہراتے ہوئے کہا کہ انچارج کون ہے؟َ ہم نے اہم خبر نشر کروانی ہے۔ ملک میں مارشل لا لگ گیا ہے۔ موجود لوگوں نے کہا کہ سر آپ غلط جگہ آگئے ہیں۔ خبریں یہاں سے نشر نہیں ہوتیں۔ افسر نے کہا کہ ہم ٹھیک جگہ آئے ہیں۔ ہمیں بیوقوف نہ بناؤ۔ سکریٹری اطلاعات مسعود نبی نور ہمارے ساتھ ہیں۔ کوئی چوں چراں کی تو گولی مار دیں گے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں گولی بھی مار دیں تو پھر بھی خبریں یہاں سے نشر نہیں ہونگی کیونکہ وہ تو نیوز ڈپارٹمنٹ سے چلتی ہیں۔ افسر نے پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ جواب ملا حضور وہ سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں ہے۔ افسر نے کہا کہ کوئی ہمارے ساتھ ٹرک میں بیٹھے اور سیٹلائٹ ٹاؤن لے چلے۔

چند منٹوں میں قافلہ سیٹلائٹ ٹاؤن روانہ ہوگیا۔ قافلے کے لوگ گاڑیوں سے اترے اور عمارت میں اندر داخل ہوگئے۔ نیوز انچارج اور عملہ موجود تھا اور صبح کے بلیٹن کی تیاری میں مصروف تھے۔ فوجی افسر سکریٹری اطلاعات کے ساتھ نیوز انچارج کے کمرے میں گئے اور کاغذ کا ٹکڑا تھمایا اور حکم دیا کہ مارشل لا کے نفاذ کی خبر نشر کی جائے۔ نیوز انچارج نے کہا کہ قوائد کے مطابق اتنی بڑی خبر ڈی جی ریڈیو سے پوچھے بغیر نہیں دی جا سکتی۔ ان کے گھر فون کیا گیا لیکن کسی نے فون نہ اٹھایا۔ نیوز انچارج نے صاف انکار کر دیا کہ ڈی جی کی منظوری کے بغیر خبر نشر نہیں ہوگی۔ افسر نے پوچھا کہ ڈی جی کہاں رہتے ہیں؟ بتایا گیا کہ ایف سکس میں موجودہ کوہسار مارکیٹ کے قریب۔



قافلہ اب کوہسار مارکیٹ کی طرف چل پڑا۔ وہاں پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا گیا لیکن کوئی جواب نہ ملا۔ ڈی جی اجلال حیدر زیدی رات گئے بھٹو صاحب کی پریس کانفرنس نشر کروا کر دیر سے سوئے تھے اس لیے نہ اٹھے۔ آخرکار فوجی افسر اور ان کے ساتھی دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہوئے اور ان کے کمرے کا دروازہ پیٹ کر انہیں جگایا۔ زیدی صاحب ہڑبڑا کر اٹھے اور ماجرا سنا۔

زیدی صاحب نے گرین لائن فون اٹھایا او بھٹو صاحب سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن فون پہلے ہی مردہ کئے جا چکے تھے۔ فوجی افسر نے کہا کہ اگر آپ کو شک ہے تو پھر آپ ضیاء الحق سے خود بات کرلیں۔ اجلال نے اپنے فون سے ضیاء الحق کو فون کیا۔ آپریٹر نے ضیا سے فون ملا دیا۔ اجلال نے ضیاء الحق استفسار کیا۔ ضیا نے تصدیق کی اور انہیں صبح گیارہ بجے جی ایچ کیو میں پریس کانفرنس کے انتظامات کی ہدایت کی۔ اس کے بعد اجلال حیدر زیدی نے نیوز کے انچارج کو فون کیا اور خود خبر لکھوائی۔ جب تک خبر تیار ہوئی اس وقت صبح چھ بجے کا بلیٹن چل رہا تھا جس میں رات گئے بھٹو صاحب کی پریس کانفرنس کی خبر چل رہی تھی۔ نیوز ریڈر ناہیدہ بشیر روانی سے خبریں پڑھ رہی تھیں۔ خبریں ختم ہونے میں آدھا منٹ رہ گیا تھا۔ اسٹوڈیو کا دروازہ کھلا۔ دروازہ کھلنے کی آواز آج بھی ریکارڈنگ میں صاف سنائی دیتی ہے۔ ناہیدہ بشیر کی گھبرائی ہوئی خوفزدہ آواز میں مارشل لا لگانے کی خبر کے ساتھ خبریں ختم ہوئیں اور آمریت کی طویل رات اور جناح کے پاکستان کو دفن کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو اب بھی جاری ہے۔

ایگزیکٹو ایڈیٹر