صحافیوں پر ہوئے تشدد، سنسرشپ کا مذاق اڑانے والے جمیل فاروقی کے ماضی پر ایک نظر

صحافیوں پر ہوئے تشدد، سنسرشپ کا مذاق اڑانے والے جمیل فاروقی کے ماضی پر ایک نظر
صحافی اور یوٹیوبر جمیل فاروقی کو پی ٹی آئی رہنما شہباز گل پر دوران حراست جنسی تشدد کیے جانے کے 'جھوٹے الزامات' لگانے پر کراچی سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اسلام آباد پولیس کی جانب سے بتایا گیا کہ یوٹیوبر جمیل فاروقی کے خلاف اسلام آباد کیپیٹل پولیس پر جھوٹے الزامات لگانے کا مقدمہ 22/701 تھانہ رمنا میں درج ہے، ملزم نے اپنے وی لاگ میں اسلام آباد کیپیٹل پولیس پر جھوٹا الزام لگایا تھا کہ ملزم شہباز شبیر (شہباز گل) پر پولیس نے جسمانی اور جنسی تشدد کیا۔

ایف آئی آر کے مطابق جمیل فاروقی نے شہباز گل کے خلاف مقدمے کی تفتیش میں رکاوٹ ڈالنے، تفتیش کو غلط رخ پر لے جانے اور غلط رنگ دینے کی کوشش کی ہے، علاوہ ازیں ملزم کے اس بیان نے پولیس کو بدنام کیا ہے اور نیک نامی کو نقصان پہنچایا ہے۔

یہ الزامات لگانے کی وجہ سے گرفتار ہونے والے جمیل فاروقی یوٹیوب پر وی لاگنگ کے علاوہ بول ٹی وی چینل سے بھی بطور اینکر وابستہ ہیں اور ماضی میں سما ٹی وی، ڈان نیوز، آج نیوز اور نیو نیوز کے ساتھ بھی منسلک رہ چکے ہیں۔

جمیل فاروقی ان صحافیوں میں سے شمار کیے جاتے ہیں جن کا جھکاؤ پی ٹی آئی کی جانب ہے، اسی لئے بہت سے صحافی حلقوں میں انہیں صحافی کم اور ایک پارٹی کا نمائندہ یوٹیوبر تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے جلسوں اور احتجاجوں میں جا کر تقاریر بھی کیا کرتے تھے۔

گذشتہ روز جب انہیں کراچی سے گرفتار کیا گیا تو ایئر پورٹ سے ان کی گرفتاری کی ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں روتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں ان کے دفتر کے باہر سے اغوا کیا گیا اور تھپڑ مارے گئے۔ انہوں نے پاکستان میں میڈیا کی آزادی پر سوال بھی اٹھایا اور بین الاقوامی میڈیا سے درخواست کی کہ ان کی گرفتاری پر آواز بلند کی جائے۔

تاہم، عدالت نے ان کا راہداری ریمانڈ دیتے ہوئے اپنے حکم نامے میں یہ واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ ملزم نے خود پر ہوئے پولیس کے تشدد کی کوئی شکایت نہیں کی، البتہ اس بات پر احتجاج ضرور کیا کہ ان کے گھر والوں کو اس گرفتاری کی اطلاع نہیں دی گئی۔

جمیل فاروقی نے اپنی گرفتاری کو تو آزادی صحافت کے ساتھ جوڑ دیا مگر ماضی میں جب جب حکومت مخالف صحافیوں کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا تو یہی جمیل فاروقی تھے جنہوں نے اپنے ٹوئٹر اور یوٹیوب پر ویڈیوز بنا کر ناصرف ان صحافیوں کے اغوا و تشدد کی حمایت کی بلکہ ان کا مذاق بھی اڑایا۔

گذشتہ برس جب صحافی اسد طور پر نامعلوم افراد کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا تو جمیل فاروقی نے ان پر تشدد کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا تھا کہ 'اکیلے فلیٹوں میں بچیاں بلاؤ، ڈیٹیں مارو اور جب ان کا بھائی ٹھکائی کر دے تو مقتدر قوتوں پہ ڈال دو کیونکہ گیٹڈ کمیونٹی اور سیکیور فلیٹ میں گھس کے مارنے والا زندہ نہیں چھوڑتا، یہ وہی کرتا ہے جسے بتانا ہوتا ہے کہ اب ہماری بہن کو مت چھیڑنا'۔



جمیل فاروقی نے اسد طور پر تشدد کے کیس کا مذاق اڑاتے ہوئے مزید لکھا تھا کہ 'باوثوق ذرائع سے معلومات ملی ہیں کہ اسلام آباد میں صحافی تشدد کیس سے جڑے 3 کرداروں کو شناختی کارڈ ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد گرفتار کر لیا گیا ہے، جھگڑا انتہائی ذاتی نوعیت کا تھا جس سے مذکورہ صحافی بخوبی واقف تھا، ذرائع کے مطابق مذکورہ صحافی اور حامیوں کی شرمندگی کا وقت ہوا چاہتا ہے۔'



اسد طور پر حملے کے خلاف صحافیوں کے مظاہرے کے دوران جب صحافی حامد میر نے تقریر کی اور انہیں جیو کے شو کیپیٹل ٹاک سے ہٹا دیا گیا تو اس پر بھی جمیل فاروقی نے ان کے پروگرام کو 'کیپیٹل ٹھوک' کہہ کر مخاطب کیا اور طنزیہ ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ 'تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ لیفٹینوننٹ جنرول بھڑک میر طا طاری المعروف لڑکی کے بھائی کے پروگرام "کیپیٹل ٹھوک" پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور یہ مذاق نہیں ہے۔'



جمیل فاروقی وہ واحد صحافی ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کے احتجاج میں اپنی صحافتی کمیونٹی کے خلاف نعرے لگائے۔ پی ٹی آئی کے ایک احتجاج میں جمیل فاروقی نے سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی کے خلاف ناصرف نعرے لگائے بلکہ ان کے خلاف تقریر بھی کی۔

https://twitter.com/mudsays/status/1561788543122685952

جمیل فاروقی کے متنازع صحافتی کردار کی کہانی یہاں نہیں رکتی بلکہ جب وہ نیو نیوز میں تھے اور اوریا مقبول جان کے ساتھ ایک شو ہوسٹ کرتے تھے تو اوریا مقبول جان اور ان کے درمیان کسی بات پر تنازع ہوا، جس کے بعد جمیل فاروقی نے ایک آڈیو لیک میں اوریا مقبول جان پر انتہائی ذاتی نوعیت کے حملوں پر مبنی الزامات لگائے۔ اس آڈیو لیک میں انہوں نے اوریا مقبول جان پر الزام لگایا کہ ان کے گذشتہ آٹھ سال سے اپنی پروڈیوسر کے ساتھ جنسی تعلقات ہیں۔ جمیل فاروقی نے الزام لگایا کہ اوریا مقبول جان اس خاتون کو اپنی بیٹی بنا کر لے جاتے ہیں، ہوٹل بک کرواتے ہیں اور اس کے ساتھ ڈیٹیں مارتے۔ جمیل فاروقی نے اس خاتون پر بھی الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا تعلق حزب التحریر نامی جہادی تنظیم سے تھا۔ اس آڈیو لیک میں انہوں نے یہاں تک کہا کہ اوریا مقبول جان کی عقل ان کی دو ٹانگوں کی بیچ ہے۔



یہی نہیں عمران ریاض خان کے کیس کی سماعت کے بعد عمران ریاض خان، سمیع ابراہیم اور جمیل فاروقی نے مطیع اللہ جان سے انٹرویو کے دوران ان پر ویڈیو میں رققی حملے کیے اور کہا کہ فوج کے بیرک میں آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی جب کہ آپ کے اس طرح کے شوق تھے کہ آپ کو فوج سے نکال دیا گیا۔ اس دوران میں جمیل فاروقی سمیت دیگر مطیع اللہ جان پر ہنستے رہے۔



اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے صحافیوں کو نشانہ بنائے جانے کا مذاق اڑانے والے جمیل فاروقی نے عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد اپنا بیانیہ تبدیل کیا اور وہی جمیل فاروقی جو پہلے 'نیوٹرلز' کو اچھا سمجھتے اور ان کے ہر عمل کی تائید کرتے تھے، عمران حکومت جانے کے بعد انہوں نے اپنے وی لاگ میں انہیں بھی نہیں چھوڑا۔

اپنے ایک وی لاگ میں جمیل فاروقی نے 'نیوٹرل امپائر' کو لعنتین دیں اور کہا کہ یہ ابھی تک نہیں سدھر رہا حالانکہ اس کو باجرا کھلایا اور 'ایکسٹیشن' بھی دی۔ بعد ازاں اسی ویڈیو میں انہوں نے کہا جرنلسٹ کے پاس اپنی بات کرنے کے بہت سے طریقے ہوتے ہیں۔ اس دوران یہ ایک تار کو 'نیوٹرل' کہہ کر اس پر جوتیاں بھی برساتے رہے۔

آج جب جمیل فاروقی گرفتار اور جسمانی ریمانڈ پر ہیں، انہیں اپنا ماضی اور اپنے ساتھی صحافیوں کے متعلق کہی گئی باتوں پر ضرور سوچنا چاہیے۔ جمیل فاروقی اپنا نظریہ تبدیل کریں نہ کریں مگر بہت سے صحافیوں نے ان کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔

صحافی وسیم عباسی نے کہا کہ جمیل فاروقی کو تھپڑ مارے گئے ہیں تو قابل مذمت ہے۔ ان کے ساتھ قانون کے مطابق ڈیل کرنا چاہیے، مجھے آج بھی یاد ہے جیسے احمد نورانی کو ادھ موا کر کے اور عمر چیمہ کو بیہمانہ ٹارچر کیا گیا تھا اسی طرح مطیع اللہ کو اغوا کر کے مار پیٹ ہوئی۔ انہوں نے بہادری دکھائی۔

https://twitter.com/Wabbasi007/status/1561748473921298432

وسیم عباسی کی اسی ٹویٹ پر رد عمل دیتے ہوئے مطیع اللہ جان نے کہا کہ 'ہم لوگ کب تک ایک دوسرے کو پٹتا دیکھ کر ہنستے رہیں گے، ایک تو تشدد اوپر سے پولیس کی تحویل میں ویڈیو یہ سب انسانیت کی تذلیل ہے، عمران خان کے دور میں ہم صحافیوں نے جس تشدد اور جبر کا سامنا کیا اس کو اب تو روکنا ہو گا، انسانیت کی تذلیل ہر حال میں قابل مذمت ہے'

https://twitter.com/Matiullahjan919/status/1561765944787013632

حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔