لشکر جھنگوی کی دھمکی اور جناح کی برطانیہ میں پناہ لینے کی درخواست

لشکر جھنگوی کی دھمکی اور جناح کی برطانیہ میں پناہ لینے کی درخواست
فرض کیجئے جناح نہ صرف حیات ہیں بلکہ اسی پاکستان میں ہیں جہاں ہم دودھ شہد کی ندیوں اور من و سلویٰ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ میٹھی نیند سوتے ہیں کیونکہ قانون کے محافظ چوبیس گھنٹے جاگتے ہیں۔ چونکہ جناح محافظ اعظم بھی ہیں لہٰذا وہ بھی نہیں سوتے۔ ہم نے تو مطالعہ پاکستان جو کہ سیرت جناح پر مستند ترین کتاب ہے، میں یہ بھی پڑھا ہے کہ وہ رات گئے سکول کا کام کرتے رہتے تھے۔ ان کی ہمشیرہ انہیں سمجھاتیں کہ بھیا سو جاؤ ورنہ صحت خراب ہو جائے گی۔ وہ کہتے بہنا اگر کام نہیں کروں گا تو بڑا آدمی کیسے بنوں گا اور اگر بڑا آدمی نہ بن سکا تو پاکستان کیسے بناؤں گا؟

تو گھنی رات ہے۔ جناح بڑے غلام علی خان کا مالکونس یوٹیوب پر سن رہے ہیں۔ اپنی ڈاک بھی دیکھ رہے ہیں۔ ماترے بھی گن رہے ہیں۔ ایک دھمکی آمیز خط نظر سے گزرتا ہے۔ لشکر جھنگوی کا سرغنہ ملک اسحاق انہیں لکھتا ہے کہ تیرے دن گنے جا چکے۔ تو شیعہ ہے۔ تیرے نام میں 'علی' آتا ہے۔ شیعہ کافر و زندیق اور واجب القتل۔ اب تُو مرنے کے لئے تیار ہو جا۔

جناح بہت پریشان۔ اگلی صبح بائیکیا کرا کے ڈپلومیٹک انکلیو میں واقع برطانوی ہائی کمیشن پہنچ جاتے ہیں۔ گارڈ کو کہتے ہیں کہ بولو جناح آیا ہے۔ ہائی کمشنر سے ملنا مانگٹا۔ گارڈ کہتا ہے بابا جی آج کرسمس ہالیڈے ہے۔ ہائی کمیشن بند ہے۔ کسی اور دن آئیں۔ جناح مجھے فون کرتے ہیں۔ میرا ایک دوست لارڈ قمر جو ملکہ کی موت کے بعد اب ڈیوک قمر بن چکا ہے، وہاں معمولی درجے کا افسر ہے۔ جناح کا کام بن جاتا ہے۔ لارڈ قمر کی سفارش پر ہائی کمشنر ملنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اس دوران لارڈ قمر گوگل کر کے جناح کا تعارف بھی ہائی کمشنر کے لئے تیار کر لیتا ہے۔

'بیٹھو مسڑ جناح۔ ٹمہارا بائیو ڈیٹا بہٹ عمڈہ ہے۔ بولو کیا مانگٹا؟ پولیٹیکل سیکشن میں ایک لوکل پولیٹیکل اسسٹنٹ کا نوکری خالی ہے۔ او سوری۔ ہم بھول گیا۔ چائے پیو گے یا کافی؟'
جناح کہتے ہیں چائے کافی کو گولی مار۔ میری جان خطرے میں ہے۔ یہ دیکھ ملک اسحاق کا خط۔

'آئی سی۔ ٹم کیا چاہٹا ہے؟'

جناح کہتے ہیں برطانیہ میں سیاسی پناہ کیونکہ وہ شیعہ ہیں۔ زندگی پہلے بھی خطرے میں تھی۔ اب تو تحریری دھمکی بھی مل چکی۔

'لیکن ٹم کٹر سنی ہے۔ ٹمہارا ٹو جنازہ بھی مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھایا تھا۔ ٹم کو اسائلم نہیں مل سکٹا۔'

جناح صورت حال واضح کرتے ہیں کہ وہ راسخ العقیدہ شیعہ ہیں۔ چونکہ پاکستان بنانا مقصود تھا لہٰذا مصلحتاً سنی بننے کا ڈرامہ رچانا پڑا۔ پھر وہ مختلف کتابوں کا حوالہ دے کر بتاتے ہیں کہ ان کا اصلی جنازہ رات کی تاریکی میں شیعہ مسلک کے مطابق ہوا تھا۔ اپنا ڈیتھ اور جنازہ سرٹیفکیٹ پیش کرتے ہیں۔ ہائی کمشنر مطمئن ہو جاتا ہے۔ لارڈ قمر کو طلب کرتا ہے جو ان سے اسائلم فارم پُر کروا لیتا ہے۔ ہائی کمیشن کے چھوٹے سے کلینک میں ایک کمپاؤنڈر جناح کا میڈیکل بھی کر دیتا ہے۔

'مسٹر جناح اب ٹم گڈھے گھوڑے بیچ کر آرام سے سو جاؤ۔ ٹمہارا کام ہو جائے گا۔ ہم ٹمہیں چٹھی لکھ کر اطلاع بھیج دے گا۔ ٹم اس دوران پیکنگ کی ٹیاری کرو اور لنڈن میں کوئی چھوٹا موٹا نوکری بھی ٹلاش کر لو۔'

جناح خوشی خوشی گھر چلے جاتے ہیں۔ چند ہفتوں بعد انہیں برطانوی سرکار سے چٹھی موصول ہوتی ہے جس کے مطابق حکومت برطانیہ مسٹر جناح کو سیاسی پناہ دینے سے قاصر ہے۔ درخواست گزار کی فراہم کی گئی معلومات تصدیق کرنے پر غلط ثابت ہوئیں۔ میڈیکل رپورٹ کی روشنی میں درخواست گزار کہیں سے بھی شیعہ ثابت نہ ہوا۔ نہ چھاتی پر حسینؓ کے ماتم کے لال نشان، نہ پشت پر زنجیری کے زخم۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ درخواست گزار ایک مکمل سُنی مسلمان ہے۔ نیز تاریخ کی مستند کتابوں مثلاً مطالعہ پاکستان، پاکستان سٹڈیز، اسلامیات، اردو، معاشرتی علوم، فزکس، کیمسٹری، بیالوجی وغیرہ میں جو مسٹر جناح کے پاکستان میں بچوں کو نصاب میں رٹائی جاتی ہیں، کہیں یہ نہیں ملتا کہ وہ شیعہ ہیں۔

Application Rejected. Case Closed!

جناح کے چہرے پر ایک شاطرانہ مسکراہٹ آتی ہے۔ اپنے سیکرٹری کو بلاتے ہیں۔ ملک اسحاق کے نام چٹھی ڈرافٹ کرواتے ہیں۔ اور بطور ثبوت کہ وہ سچے سنی مسلمان ہیں، برطانوی سرکار کی چٹھی لف کرا کے بھیج دیتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی سیاسی بصیرت سے ہاری ہوئی بازی جیت جاتے ہیں۔

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔