کیا ہمارا ملک جناح کا پاکستان بن سکتا ہے؟

کیا ہمارا ملک جناح کا پاکستان بن سکتا ہے؟
محمد علی جناح نے مسافرت بھری نگاہوں سے فاطمہ جناح کو دیکھا اور کہا: "فاطی، نہیں! جیتے رہنے میں اب میری کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی، جتنی جلدی میں اِس جہان جاں بریدہ سے چلا جاؤں بہتر ہے" ۔ " ڈاکٹرز بہت پرامید ہیں"۔ فاطمہ جناح نے لب ولہجے میں دلاسہ بھر کر کہا ۔ "نہیں، اب میں مزید زندہ نہیں رہنا چاہتا۔" اُنہوں نے مایوس کن تکرار کی۔

قوتِ ارادی کا فولاد بروئے کار لانے والے جناح نے بالخر قاتلانہ نومیدی کا اظہار کیوں کیا؟ جبکہ بستر علالت پر ہونے کے باوجود چند دنوں سے ان کی سانسیں سنبھلنے لگی تھیں۔ وہ کچھ کھانے پینے اور اخبار بھی پڑھنے لگے تھے۔ خدا معلوم کیونکہ اپنی خود کلامیوں سے تو جناح صاحب خود ہی واقف ہونگے لیکن حصولِ پاکستان کے بعد جس طرح کا داخلی سیاسی بھونچال بپا کیا گیا۔ علاوہ کشمیر اور مہاجروں کی مقامیت کے۔ وہ کسی بھی روشن خیال اور امید پرست بابائے وطن کو اس سے زیادہ مایوسی پر بھی مائل کر سکتا تھا۔ خدا گواہ ہے کہ بانیان مملکت میں شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جن کے متاخرین نے اپنے اتاترک کے نظریوں کو اس قدر پامال اور راندہ سفر کیا ہوگا جتنا پاکستان کے ارباب اختیار نے۔

آنکھ بند ہونے تک ان کی دور رس نگاہوں اور یک چشمی عدسے میں ایک ترقی پسند دستور پاکستان اور دستور عمل کا نقشہ  اور اصلاحات طلب ریاست کی بیسیوں خواہشیں اور ارادے لوح قلب پر مرتسم۔ کوئی دوسری رائے نہیں کہ جناح صاحب برطانوی پارلیمانی جمہوری طرز پر پاکستان کا آئین تشکیل دینا چاہتے تھے۔ علالت کیساتھ ساتھ مراجعت پسندانہ مطالبات اور بیانات نے بھی، جن کی پیشکاری میں وہ تمام ملا اور جاگیردار پیش پیش تھے جو بالخصوص قائداعظم اور تخلیق پاکستان کے خلاف تھے۔ وہ شورش بپا کی جس کی بازگشت آج تک ہمارے ایوانوں اور دالانوں میں سنائی دیتی ہے۔ ایسے ہی کچھ فرسودہ منش پیش اماموں نے یہاں تک بھی کہہ دیا کہ " پاکستان بنانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اس ملک کے مستقبل کا تعین بھی کر سکتے ہیں۔ "دو چار جناح مخالف مولویوں نے تو اپنی تحریر وتقاریر میں کئی بار اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ جناح صاحب کی بجائے اُنہیں 'قائدِاعظم' یا کم از کم 'امیرالمومنین' یا 'شیخ الاسلام' قرار دے اقتدار کے گھوڑے پر سوار کر دیا جائے۔ اور پاکستان کے وہ جاگیردار جو اپنے پیروں تلے سے زمین نکلتی ہوئی دیکھ رہے تھے سرمایہ پسند مولویوں کی دستار تھام کر ساتھ کھڑے ہو گئے۔ اور پھر جلد ہی 1950 کے پچھل پیری بحران نے ہماری دہلیز پر قدم رکھ دیے۔

وہ دیدہ ور ہستی جس نے پاکستان کو آسمانِ عالم پر ایک ماہ رو سیارے کی طرح دیکھا تھا جس کی تجلی مستقبل شناسا اور رفتار ہمسفروں سے بڑھتی ہوئی ہو نہ کہ اقوامِ عالم کی کٹڑیوں میں ٹھٹھرتی ہوئی ایک ضعیف ونحیف مملکت جس کا دامن دریدہ اور کاسہ گدائی میں نان و نفقہ کی گرسنگی مستقل۔ وہ اِس لئے کہ جناح صاحب کے نکتہِ نظر کے برعکس ہم نے صنعت وحرفت، سائنسی اور تکنیکی، سماجی اور معاشی بنیادوں میں نظریاتی پسپائی اور تاخیر کیساتھ ساتھ تشکیک اور مزاحمت بھی اںڈیلی۔ عوامی خدمات کی بجائے مفاد پرستانہ سیاست، گئے دِنوں کی معاشی انحصاریت اور نظریاتی گھن چکروں میں ہم جدید ترقیاتی ریاست کا سانچہ ڈھالنے میں ہچکچاتے رہے۔ نتیجتا" نہ ہم طبقاتی کشمکش سے آزاد اشتراکی ریاست بن سکے، نہ ہی فلاحی اور نہ ہی کلی طور پر سرمایہ دارانہ۔

جسونت سنگھ کی رائے میں گاندھی جی اگر 1920 کے عشرے میں چورا چوری، خلافت، عدم تعاون اور بائیکاٹ وغیرہ کے ذریعے کوچہ وبازار کی پاپولر سیاست کرکے راستہ نہ روکتے تو عین ممکن ہے کہ جناح صاحب پارلیمانی جمہوری جدوجہد کے ذریعے 1921-1922 میں ہی بھارت کو سامراجی ہتھکڑیوں سے آزاد کروا چکے ہوتے۔ فیصلہ کن ہے کہ پاکستان عوامی جمہوری تحریک کے منطقی نتیجے کے طور ہمارے ہاتھ آیا بالخصوص 1946 کے انتخابات کے بعد جب لیگ نے مسلم اکثریتی حلقوں کی تقریبا" تمام نشتیں جیت لیں تو پیشِ نظر جغرافیہ کو پیچھے دھکیلنا اب ناگزیر تھا۔ پس کوئی بھی آمرانہ نظام، مملکتِ پاکستان کے ارتقا میں جست پگھلانے کی سعی ہے۔ نوزائیدہ پاکستان کی مستعد افواج پر انہوں نے بہت پہلے واضح کر دیا تھا کہ "راج پاٹ یا منصوبہ سازیاں ان کا نہیں سیاستدانوں کا کام ہے جبکہ ان کا فرض محض عملدرامد ہے" ۔ اور یہ کہ "وہ شہریوں کی اِملاک، جان و مال اور آبرو کے نگہبان ہیں جو کسی مرتبہ آفرینی سے کم نہیں"۔

جناح صاحب رائے عامہ کا اِستعارہ تھے۔ برملا کہتے تھے کہ "جمہوریت مسلمانوں کے لہو میں موجزن ہے" اور "میں مساوات، بھائی چارے اور انسانی آزادیوں یعنی لبرازم پر یقین رکھتا ہوں (دسمبر1946، لندن)"۔ ورنہ ہندوستانی مسلمان کم از کم پچاس سال بار بار انہیں اعتماد کا ووٹ نہ دیتے۔ لاکھ افسانہ طرازیوں کے باوجود کوئی اِس تحریر پر کچھ اور تحریر نہیں کر سکتا کہ جناح صاحب نے پاکستان کی بنیادیں لشکر کشی، جنگ وجدل یا حرب وضرب پر نہیں بلکہ پارلیمانی، جمہوری اور عوامی حکمرانی کے اصولوں پر اُٹھائی تھیں۔

انھوں نے گوروں کا عطا کردہ سر کا خطاب خاک پر دھر دیا۔ 1947 کے ایک جلسے میں کسی نے 'شہنشاہِ پاکستان۔ زندہ باد' کا نعرہ لگایا تو وہ سخت برہم ہوئے اور کہا کہ "میں شہنشاہ نہیں بلکہ پاکستان کا ادنیٰ سا خادم ہوں"۔"میں ایک صاف ستھرا جناح تھا اورایک سادہ ترین جناح کے نام سے مرنا چاہوں گا"۔ اور یہاں یہ عالم ہے کہ ہر دوسرا وزیر یا مشیر اپنے آپ کو آئین و قانون، حتیٰ کہ پارلیمانی جمہوری تقاضوں بلکہ عمومی سماجی اخلاقیات سے بالاتر کسی شاہِ شاہان سے کم نہیں سمجھتا۔ 26 اگست 1947 کو کراچی کی ایک جامع مسجد میں بروز جمعہ یہ تجویز کیا گیا کہ "جناح صاحب کا نام خطبہِ جمعہ میں شامل کیا جائے"۔ سنتے ہی انہوں نے حرفِ تنسیخ جاری کر دیا کیونکہ 11 اگست کے علاوہ بھی وہ ایک سے زیادہ مرتبہ، دو ٹوک کہہ چکے تھے کہ " پاکستان کسی صورت مذہبی یا تھیوکریٹک ریاست نہیں بننے جا رہا (فروری 1948)" ۔

ایک زمانہ جانتا ہے کہ اگست 1947 کی معروف تقریر میں ہی، جسے یک رنگی ریاست کے داعیوں نے ایک عرصے تک مستور ومحدود رکھا۔ انہوں نے پاکستان کے آئینی، جمہوری اور پارلیمانی خدوخال واضح کر دیے تھے یہ کہہ کر کہ "ریاست کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ آپ اپنے مندروں، مساجد اور دوسری عبادت گاہوں میں جانے کیلئے آزاد ہیں۔ بلا تفریق رنگ، ذات، مسلک اور عقیدہ، آپ صرف اور صرف اس ملک کے شہری ہیں اور بس"۔ اور یہ کہ "ہم اِس اصول پر اپنی ریاستی نظام کاری کا آغاز کر رہے ہیں کہ "ہم اِس مملکت کے برابر کے شہری ہیں"۔ اگر بانیِ پاکستان ایک رجعت پسند مذہبی ریاست بنانا چاہتے تو وہ ایک ہندو بلکہ دلِت یعنی جوگندر ناتھ منڈل کو اپنا پہلا خود منتخب کردہ وزیرِ قانون نامزد کرنے کی بجائے مولانا شبیر احمد عثمانی کا انتخاب کرتے جو کہ دستور ساز اسمبلی کے رکن بھی تھے۔ تضاد، اِس پر مستزاد یہ کہ کچھ قوتیں آج بھی پاکستان کو مطلق العِنان مذہبی ریاست بنانے پر تلی ہوئی ہیں۔ حالانکہ 96 فیصد مسلمانوں کے مملکت میں اسلام کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟

پاکستان نفاذ اسلام کیلئے نہیں بلکہ اکثریتی مسلمانوں کی سماجی، سیاسی، اور فکری آزادیوں کیلئے تخلیق ہوا تھا کیونکہ بدلتے ہوئے ہندوستان میں وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ مذہبی اور ثقافتی اقلیت تصور کرنے لگے تھے۔ جس طرح کے جبر اور امتیازی رویے کا سامنا بھارت کے مسلمانوں کو بالعموم آج ہے۔ جناح صاحب کو اِس کا بخوبی اندازہ تھا۔ اِس کے باوجود اُنہوں نے وفاقی پارلیمانی اصولوں کا احترام کرتے ہوئے کابینہ مشن (مارچ 1946) کی کنفیڈریشنل آپشن سے بھی ہر ممکن تعاون کیا مگر! مَیکس وَیبر کی مانند جناح صاحب کو بھی اِدراک تھا کہ اچھی پالیسی سازیوں کے بعد اگر افسر شاہی تندہی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے اُنہیں دائرہ عمل تک لائے تو بغیر کسی خون خرابے کے اِنقلاب کی پھلواری لگائی جا سکتی ہے۔ اخبارات کے تراشوں، لائبریریوں کے مخطوطات، 'ہیکٹربولیتھو' یا 'سٹینلے وولپرٹ' سے لے کر 'جسوۤنت سنگھ' اور 'ایل کے آیڈوانی' کی نگارشات تک کسی نے جناح کا اپنی جادو بیانی یا سحر قامتی کے غلط اِستعمال کا کوئی واقعہ رقم نہیں کیا۔ حتیٰ کہ ان کے سیاسی حریف بھی کبھی ان کی تردامنی یا طمع کوشی کی طرف کوئی اشارہ نہ کر سکے۔ تنہائی کے پچاس سالوں کے باوجود جنسی، سماجی یا مالی کمزوریوں کی کوئی کہانی 1992 سے لے کر 2022 تک جناح صاحب کا تعاقب کرتی ہوئی ہم تک نہیں پہنچتی۔

اور کہاں یہ عالم ہے کہ چند ممتاز شخصیات کو چھوڑ کر، آزادی کے عشرہِ اوۤل سے لے کر آج تک اثر ونفوذ کے غیر مستحسن استعمال سے ہماری نوکر شاہی کے ضمیمے اور دفاتر داغدار ہیں۔ کیا اختیارات کی داروگیر، کیا قرابت داری، بخشیش اور مجبوروں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ناف گدازیوں کی ہوس تک "ہر داغ ہے اِس دل میں بجُز داغِ ندامت"۔ افسرانہ عدم تہذیبِ کاریوں اور فرائض کی اِعتراض شعاریوں سے لے کر گھروں میں الف لیلوی خزانوں کی دستیابی تک ایک درکھان یا ایک لوہار کو 'فسانہِ عجائب' سنانے کیلئے کافی ہیں۔ یا شاید ناکافی ہیں کہ "آتا ہے ابھی دیکھئیے کیا کیا میرے آگے؟"

جولائی 1948 میں ڈاکٹر الہی بخش نے اپنے مریض کو اچھے سے اچھا کھانا کھلانے کیلئے کہا تاکہ ان کا تن و قلب مقوی ہو۔ زیارت میں ایک روز فاطمہ جناح نے ان کی مرغوب غذا تیار کروائی جو انہوں نے بڑی رغبت سے کھائی مگر بھانپ کر فورا" پوچھا ۔ "فاطی، یہ کھانا کس نے بنایا ہے؟" "وہ ! بمبئی میں جو آپ کا باورچی تھا، اُس نے، ہم نے اُسے لائل پور سے ڈھونڈ نکالا ہے"۔ محترمہ نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا "اُس کے سفری اخراجات اور معاوضہ؟ " قائد نے استفسار کیا۔" "حکومتِ پنجاب نے ادا کئے ہیں"۔ محترمہ نے گھبراتے ہوئے جواب دیا۔ انہوں نے فورا" ایک کاغذ نکال کر لکھ دیا کہ "تمام اخراجات ان کی جیب سے ادا کئے جائیں گے اور بالِاصرار کہا کہ" گورنر جنرل کسی ضابطے کے تحت ایسی مراعات کا حقدار نہیں ہے۔"

آخری ایام میں کراچی منتقل کرتے ہوئے انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہاں وہ نواب بہاولپور کے بنگلے میں منتقل ہو جائیں تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ "مبادا روایت پڑ جائے"۔ لیگی چندے اور ریاستِ پاکستان کا ایک پیسہ انہوں نے کبھی اپنی ذات پر صرف نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ جناح کا اپنی طاقت اور اختیارات کا ایمانیات کی حد تک پاکیزہ اصراف اور صاف دامانی جنس ونظر اپنا سا منہ لے کر کہاں جائیں؟۔ اس مردِ راست کردار وگفتار کے اُسوہِ اثر انگیز کی بخیہ گری کون کرے گا؟ جناح کی رائے میں تو ہم نے شاید ایمانداری اور فرض شناسی کے پہلے پائیدان پر بھی قدم نہ رکھا ہو۔ شاید سنی ان سنی کرنے یا پھر پہلوتہی کرنے کو ہی نوکر شاہی ہادیِ ملت کی زندہ پائندہ تصویر کو اپنی پُشت پر رکھتی ہے۔

عوامی خدمات کے اداروں کو اس سے بڑا پرسہ کیا دیا جا سکتا ہے کہ جہاں کارکردگی، انصاف پسندی، غیر جانبداری اور غیر متعصبانہ اقدامات بسترِ مرگ پر ہوں اور فرقہ، فقہ، ذات، رِشتہ اور معرفت دھرم آلودہ ہوں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ تعزیت جناح صاحب سے کیجائے، افسر شاہی سے یا متفرق حکومتوں سے؟

یکم مارچ 1946 میں کلکتہ کے ایک مسلم لیگی اِجلاس میں جناح اپنے سامعین سے یوں مخاطب ہوئے: " اب میں ایک عمر رسیدہ آدمی ہو چکا ہوں۔ میں اپنا خون پسینہ، راحت اور اِستراحت سرمایہ داروں کی عیش منزلتوں کیلئے نہیں گنوا رہا بلکہ عوام کا مقدر چمچمانے کیلئے صرف کررہا ہوں۔ غریب اور مفلوک الحال لوگوں کی من ماری اور تن سوزی، جیسی میں نے بنگال میں دیکھی ہے، مجھے آرام کرسی پر بھی مضطرب رکھتی ہے۔ پاکستان بنتے ہی ہم اپنی قدر واختیار میں وہ سب کچھ کریں گے جس سے تمام لوگوں کو مہذب روزگار اور کم از کم بنیادی خوشحالی میسر آسکے۔" ہماری حالیہ معاشی ابتری اور اسقاطِ نمو ملک میں سائنسی، فنی، صنعتی اور تکنیکی اداروں اور ایجادات یا ملمع سازی کی کمی ہے جس پر جناح صاحب نے کئی مرتبہ اصرار کیا۔ ایسے ہی اصولوں کو اپنا کر دوسرے مسلم ممالک مثلا" ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا اور قطر وغیرہ ہم سے کہیں آگے نکل گئے ہیں اور ترقی پسندی کے باوجود ان کے اسلام کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔

مذکورہ بالا مہینے میں ہی جب ایک صحافی ایس۔ این بکر نے پاکستان کی متوقع معاشی مشکلات کے بارے میں استفسار کیا تو جناح صاحب نے کہا: " یقینا" مجھے ان تمام مشکلات کا بھرپور اندازہ ہے، ہم (تعلیم اور صنعت وحرفت کے) مواقع فراہم کرکے عوام کو مالی مشکلات سے نکالنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ اور میں اِس مشن سے پیچھے ہٹنے والا نہیں ہوں چاہے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔" یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اگست 1947 کے ایک اجلاس میں زور دیا کہ "ہمیں اپنے تمام (سیاسی) اختلافات اور تفریق (ماسوائے شناخت کے) بھلا کر اپنی توجہ صرف اور صرف عوام اور خاص طور پر خستہ حال طبقہ کی بہبود اور خوشحالی پر صرف کر دینی چاہیے۔"

عصرِ حاضر کی معیشت ہائی ٹیک مہارتوں اور مکینکل پیداوار کے سمبندھ میں باہمی ریاستی مراسم اور تجارت سے نشوونما پاتی ہے۔ ماسوائے اسرائیل اور بیلفور اعلامیے کی مذمت کے (1939) (جس کی جارحیت پسندی آج بھی ثابت ہے) انہوں نے ہندوستان سمیت تمام ممالک کیساتھ بہترین تجارتی اور خارجہ تعلقات پر زور دیا۔ "اب ہمارا اصل مقصد پاکستان کی خوشحالی اور مُفلسی کا خاتمہ ہے، جو کہ اقتصادی کامرانی کے بغیر ممکن نہیں"۔ تشکیلِ پاکستان کے فورا" بعد کہا کہ "جو ہو سو ہوا، بھول جائیے۔ ہندوستان اور پاکستان کو اپنے (تجارتی اور ثقافتی) تعلقات ایسے ہی رکھنے چاہیں جیسے کینیڈا اور امریکہ کے درمیان ہیں۔" اور پنڈت نہرو کی رائے بھی یہی تھی کہ "اجنبی ہمسائے بن کر رہنے سے بہتر ہے کہ ایک دوسرے کو تسلیم کریں اور دوستانہ بنیادوں پر اپنے رابطے بڑھائیں تاکہ کشت وپیکار کے امکانات کم کئے جا سکیں اور یہی ہم دونوں کی (خوشحالی) کا واحد راستہ ہے" ۔ 1948 اور 1956 میں صاحبِ حِکمت و سیاست حسین شہید سہروردی یوں پیغام سرا ہوئے کہ "قائد کے قول یعنی 'مذہب کی ریاستی معاملات سے لاتعلقی' اور 'عوامی فلاح وبہبود' کو بھلا کر اگر ہم ' پاکستان خطرے میں ہے' اور 'اسلام خطرے میں ہے' کے ہول وبیم پر نظام مملکت چلائیں گے تو پاکستان تادیر وسوسوں کا اسیر رہے گا۔

اتہاس کے ان پنوں کو ہم کیسے پھاڑ کر پھینک سکتے ہیں کہ جناح صاحب، صلح جو پارسی بزرگ سیاست کار دادا بھائی نارو جی کو انکی وفات (1917) تک اپنا استاد مانتے تھے، اور اپنی راہِ طلب میں دور تک ہندو۔ مسلم اِتحاد کے سفیر رہے اور ماسوائے بھارت کے شمال مغربی مسلمانوں کے حقوق اور آزادیوں بارے اصولی موقف اختیار کرنیکے، پاکستان بننے کے بعد تک انہیں کسی غیر مسلم سے کوئی رنجش نہیں تھی اور جناح کی یہی بصیرت پاکستان اور ہندوستان کے برادرانہ ہمسایہ اور تجارتی تعلقات میں بروئے کار لائی جا سکتی ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ انتہا پسند ملاؤں، مذہبی سیاسی جماعتوں اور نوع بنوع استحصالی دھڑوں کے زیرِ اثر پاکستان ناصرف اقلیتوں کو آزادیاں اور تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا بلکہ اقلیت سازی کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور سراسیمگی کا اب یہ عالم ہے کہ ہر دوسری لسانی، ثقافتی یا مسلکی کمیونٹی اپنے آپ کو اقلیت تصور کرتے ہوئے غیر محفوظ خیال کرنے لگی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جناح صاحب کے قریبی دوست، معالج، ملازم، باورچی اور کئے دوسرے رفقا غیر مسلم تھے حتیٰ کی ان کی محبوب بیوی بھی پارسی پس منظر سے تعلق رکھتی تھی۔

ادلے بدلے میں سکھوں اور ہندووں پر کئے گئے تشدد کو روکنے کیلئے انہوں نے کہا تھا کہ "مجھے آپ 'گورنر جنرل' نہیں بلکہ (اقلیتوں کا) 'پروٹیکٹر جنرل' تصور کریں"۔ صرف دو مرتبہ احباب نے ان کی آنکھوں کے بَجرے اشکوں میں ڈولتے ہوئے دیکھے۔ ایک مرتبہ رتی جناح کی تربت پر مٹی ڈالتے ہوئے اور دوسری مرتبہ بٹوارے کے دوران لرزا دینے والا باہمی کشت و خون اور انسانوں کی بے حرمتی دیکھ کر۔ جناح اور گاندھی جی دونوں کے لئے یہ منظر غیر متوقع اور تکلیف دہ تھا۔ وہ ذات پات اور جاتی ورنا کی تفریق کو دورِ جاہلیہ کی باقیات سمجھتے تھے اور ان کے خیال میں اب انسان کو مذہبی اور مسلکی تعصبات سے آگے بڑھنا چاہیے۔ یورپ اِس المیے سے گزر کر ہی انسانی مساوات کے افق سے ہم رکاب ہے اور یہ کہ تاریخ ہماری کامل مدرس ہے اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آھنگ اُنہیں پختہ یقین تھا کہ زد پذیر افراد کی ہم قدمی کے بغیر کوئی قوم ترقیاتی قوسین کو نہیں چھو سکتی۔

تعلیم، اور جدید سائنسی اور سماجی علوم کو وہ صحیفانہ صدر نشینی عطا کرتے تھے۔ یہ تعلیم ہی تھی جس نے درمیانے طبقے سے قدم اٹھانے کے باوجود انہیں زیرک کانگریسی لیڈرز اور برطانوی وائسرائوں کے استوا پر لا کھڑا کیا تھا۔ خوش بیانی کیلئے نہیں بلکہ مکمل شعور کیساتھ کہا تھا کہ " تعلیم روشنی ہے، جہالت اندھیرا، اور یہ کہ (اچھی) تعلیم پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ دُنیا (روشنی کی) رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر ہم نے عِلمی اُڑان ترک کر دی تو ہمارا نشان تک باقی نہیں رہے گا"۔ اپنی سیاسی سرت سبھا کے دوسرے عشرے میں ہی انہوں نے انگریز حکومت کو تعلیم کیلئے ممکنہ وسائل اکھٹے کرنے پر زور دیا تھا۔ اُنہیں احساس تھا کہ "سماجی اور معاشی مساوات کا نور محل علم کے تاروپود پر ہی بنا جا سکتا ہے۔ وگرنہ سماج کی روایتی ناہمواریوں کو ہی نظامِ فطرت سمجھا جاتا رہے گا۔" اور اِدھر ہماری 75 سالہ تاریخ سامنے ہمارے ٹھہری جِرح کر رہی ہے کہ روشن خیال مساوی تعلیم، سکولوں کی تعمیر وسہولیات اور اچھے اساتذہ کی فراہمی اشک شوئی کے سوا کبھی ہماری پالیسی ترجیح نہیں رہی۔ اور اس حوالے سے ہم اپنے ترقی پذیر پڑوسیوں کے سایوں سے بھی چھوٹے ہیں ۔ "شرم ہم کو مگر نہیں آتی"۔

بعض اوقات بعض ترقی پسند دانشوروں کی طرف سے بھی جناح صاحب کے وژن پر شکوک و شبہات ظاہر کئے جاتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ اگر کسی ریاست کے مسقبل کا ترقی پسندانہ معاشی، سماجی، سیاسی اور جمہوری لائحہ عمل بتانا اگر وژن نہیں ہے تو کوئی بتائے کہ وژن کس نیلی چڑیا کا نام ہے؟ مقصود گفتگو یہ بھی نہیں کہ جناح صاحب کو انسانی کمزوریوں یا سیاسی سمجھوتوں سے ماورا دیوتا نما کوئی ہستی قرار دیا جائے۔ بلکہ یہ ہے کہ جو تھوڑی بہت کمزوریاں یا سمجھوتے ہمیں معلوم ہیں وہ ان کی روشن خیالی اور عملی اقدامات کے مقابل کہیں زیادہ بودے، پُھسپُھسے اور بے معنی ہیں۔ چیونٹی کو ہاتھی بنا کر دکھانا یا تو ان پر الزام دھرنے کے مترادف ہے یا پھر اپنے کچے نکتہِ نظر کا پرچار۔

ملال یہ بھی ہے کہ اکا دکا دانشوروں کو چھوڑ کر پارلیمانی سیاسی جماعتیں بھی جناح اور جناح کی ترقی پسندی کا 'ریشمی رومال' لہرانے سے گُریز کرتی ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنی روشن خیالی اور جمہورہت پسندی کے باوجود جناح کا کم کم ذکر کرتی ہے کہ کہیں قائدِ عوام ذوالفقارعلی بھٹو کے نام کو گرہن نہ لگے۔ مسلم لیگ (ن اور ق) جناح کا اصل چہرہ دکھانے سے اس لئے گھبراتے ہیں کیونکہ یہ مسلم لیگ جناح صاحب کی مسلم لیگ کسی بھی حوالے سے باقی نہیں رہی بلکہ دائیں بازو اور دوسری انتہائی دائیں جانب جھکاؤ رکھنے والی جماعت بن چکی ہے۔ رہی جہاں تک بات تحریک انصاف کی تو وہ ایک تاریخ نابلد بانی مبانی کی نابلد جماعت ہے۔ وہ اور ان کا رہنما کبھی اپنی نرگسیت کے آئینے سے باہر نکلیں تو جناح صاحب کی آئینہ صفت شخصیت کی طرف بھی نگاہ کریں۔ عوامی مقبولیت ان کی واحد خیمہ گاہ ہے۔ اس لئے کیا اسلام، کیا برصغیر پاک وہند کی تاریخ، کیا جناح صاحب کا وژن، بلا حقیقت، بلا تحقیق جو من مراد میں آئے کہہ دو۔ بس تالیاں گونجنی چاہیں اور نعرے بجنے چاہیں۔ اُنہیں جناح کی جدوجہد اور وژن سے کیا لینا دینا اور مذہبی سیاسی جماعتوں کا تو ذکر ہی کیا وہ تو قبل از تقسیم سے ہی جناح مخالف رہی ہیں اور اب اپنے گناہوں کو ثواب کر دکھانے کیلئے طرح طرح کے پَینترے بدلتی ہیں۔

ایک طرح سے آگ کا دریا عبور کرنے بعد پہلے سال ہی اپنی جاگتی آنکھوں سے مملکتِ خداداد کی 'شب گذیدہ سحر' پر لہراتے ہوئے جو 'داغدار اجالے' جناح صاحب نے دیکھے تھے اس کا تصور شاید انہوں نے اپنے کمزور ترین لمحوں میں بھی کبھی نہیں کیا تھا۔ پس چہ باید کرد سوائے جناح کے اپنے الفاظ میں دعا کرنے کے کہ: "خداوندِ بے کراں عقل و احساس کیساتھ ہمیں اپنی ریاستی ذمہ داریاں ادا کرنے کا ظرف عطا فرمائے"۔

قصہ مختصر جناح صاحب کے وژن کو مِن وعن قبول کئے بغیر صرف قومی ترانے بجانے سے ملت کی پاسبانی نہیں ہو سکتی۔ ملی نغمے لہو کا صاون تو برسا سکتے ہیں مگر سفینہ وطن کو چاندنی کنارے نہیں لگا سکتے۔ کاش صرف پانچ سال مزید جناح صاحب کے عناصر ترکیبی میں توازن باقی رہتا تو پاکستان ایک منفرد ملک ہوتا۔

موجودہ حالات میں ایک مزدور، ایک خوانچہ فروش، ایک رکشے والا، ریڑھی والا اور بوڑھی بیوہ اپنے وطن کو اور کہہ ہی کیا سکتے ہیں ماسوائے: "دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے"

نوٹ: اس مضمون کا پہلا ورژن 'جریدہ پاک جمہوریت' میں بھی شائع ہو چکا ہے۔

 

مصنف سماجی اور ترقیاتی تجزیہ کار ہیں ـ وہ اسلام آباد کے ادارہ برائے تحقیق و ترقی (ادراق) سے وابستہ ہیں