طبی شعبے میں ترقی کیے بغیر پسماندہ ممالک سامراجیت کے اثر سے نہیں نکل سکتے

طبی شعبے میں ترقی کیے بغیر پسماندہ ممالک سامراجیت کے اثر سے نہیں نکل سکتے
پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی کل تعداد ڈھائی لاکھ کے قریب ہے جبکہ اس سال میڈیکل کالجوں کی 20 ہزار نشستوں کے لیے ڈھائی لاکھ امیدوار ایم ڈی کیٹ کے امتحان میں شریک ہو رہے ہیں۔ یہ تمام افراد بیالوجی یعنی حیاتیات کے مضمون میں بہت اچھے نمبر لے کر کامیاب ہو چکے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں حیاتات کا بنیادی نصاب تقریباً یکساں ہے۔ درسی کتب بالکل واضح طور پر بیان کردیتی ہیں کہ تمام جان داروں کے اعضا ننھے ننھے خلیوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ خلیہ کے مرکزے میں مخصوص پروٹینی ڈی این اے قیام پزیر ہوتا ہے۔ ڈی این اے کی لڑی کے معین حصے جینز کہلاتے ہیں۔ یہی اس جان دار کی شکل و صورت، نشوونما، افزائش نسل اور عالم رنگ و بو میں بقا سمیت سبھی معاملے طے کرتے ہیں۔ ایک نسل سے دوسری نسل تک ان خصوصیات اور معلومات کی منتقلی جینز ہی ممکن بناتے ہیں۔ ہر انسان میں 20 سے 25 ہزار جینز ہوتی ہیں جن میں سے نصف ماں اور نصف باپ کی طرف سے آتے ہیں۔ کئی بیماریوں میں انہی جینز کا اہم کردار ہے۔ جینز ایک نسل سے دوسری، دوسری سے تیسری اور اسی طرح نسل در نسل آگے منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ وراثت کے اس نظام کا مطالعہ جینیات کہلاتا ہے۔

پبجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی بارھویں جماعت کے لیے تیار کی گئی بیالوجی کی کتاب میں ارتقا کے نظریے پر ایک سبق موجود ہے جس میں لکھا گیا ہے:
"ابتدائے آفرینش سے ہی انسان کو زمین اور حیات کے آغاز سے متعلق سوالات تنگ کرتے رہے ہیں۔ یہ زمین کتنی پرانی ہے؟ حیات کی ابتدا کیسے ہوئی؟ کسی جانور کی مخصوص نسل کیسے وجود میں آئی؟ سائنسی تحقیق و تفتیش ہی ان مشکل سوالات کے جوابات ڈھونڈ سکتی ہے۔ ارتقا سے مراد وہ عمل ہے جس سے گزرتے ہوئے حیات اپنی ابتدائی شکل کو تبدیل کر کے اس بے اندازہ تنوع تک پہنچ چکی ہے جس کے شاہد ہم سب ہیں۔ جان داروں کی آبادیوں کا آپس میں اور اردگرد کے ماحول سے ربط و ضبط ارتقائی تبدیلیوں کی اہم ترین اساس ہے۔ ارتقا کا لفظ سنتے ہی جو پہلا نام ہمارے ذہنوں میں فوراً ابھرتا ہے وہ چارلس ڈارون کا ہے۔ درحقیقت وہ پہلا شخص تھا جس نے سائنسی ثبوتوں کے ساتھ یہ بات ثابت کی کہ جاندار اپنی موجودہ شکل میں وجود میں نہیں آئے تھے بلکہ وہ اپنے اجداد کی ارتقا شدہ شکل ہیں۔ اس نے اس عمل کو ایک نام بھی دیا: قدرتی انتخاب۔۔ نیچرل سلیکشن"۔

پاکستان میں قدامت پسند سیاسی تنظیموں، ان سے منسلک خیراتی اداروں، عسکری ٹولیوں اور تبلیغی جتھوں نے جبر کا ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ بارھویں جماعت میں پڑھائے گئے مضامین پر بھی گفتگو تقریباً ممنوعات میں سے ہے۔ اب یہ تمام حقوق علمائے دین، مفتیان شرع متین اور نیم حکیم شارحین نے اپنے نام محفوظ کرا لیے ہیں۔ سائنس خواندہ احباب اگر انٹر کی سطح کے سائنسی موضوعات پر بھی یوٹیوب علما کی تفہیم کے محتاج ہیں تو انا للہ پڑھ لینی چاہئیے۔

لندن کا نیچرل ہسٹری میوزیم

ہم ایک سے زائد دفعہ اس عجائب خانے میں قدم رکھ چکے ہیں۔ پہلی مرتبہ میوزیم کے باہر داخلے کے منتظر زائرین کی 2 کلومیٹر طویل قطار دیکھ کر جو شدید حیرت ہوئی تھی وہ اب نہیں ہوتی۔ یہاں داخلہ مفت ہے۔ اسی میوزیم میں ایک پورا سیکشن انسانی ارتقا کے بارے میں ہے۔
ایک شوکیس میں مختلف کھوپڑیاں سجائی گئی ہیں جن میں سے کچھ بندروں سے کافی مشابہہ ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں میں ملنے والے ڈھانچوں، اکا دکا ہڈیوں، پتھروں میں ڈھلے فوسلز، آثار قدیمہ، جدید اختراعات اور حالیہ برسوں میں ہوئی ڈی این اے تحقیق کی مدد سے ایک پوری کہانی تحریر کی گئی ہے۔
جب ہمارے ابتدائی اجداد افریقہ میں ظہور پذیر ہوئے تو وہ ہم سے زیادہ چمپانزی کے نزدیک تر تھے۔ مسلسل ارتقا کرتے ہوئے ہماری موجودہ نوع ہومو سیپیئن 3 لاکھ سال قبل افریقہ میں منصہ شہود پر ظاہر ہوئی تھی۔ ان اذکار رفتہ بزرگ بندروں کے لیے ہومِنِن یا انسان نما کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ اب تک 20 مختلف انواع کے انسان نما دریافت ہو چکے ہیں۔



ان سب کی صفات یہ ہیں:
1۔ دو قدموں پر چلنا۔ کافی دیر تک سیدھے کھڑے رہنا اور دو پیروں پر چہل قدمی و جہاں گشتی شرفِ آدمیت ہے۔ یہ صلاحیت حاصل کرنے کے لیے ہمارے کولہے، ریڑھ کی ہڈی، ران کی ہڈی، گھٹنے اور پیر کے پنجے ہزاروں لاکھوں سال تبدیلیوں سے گزرے۔

2۔ بڑا دماغ۔ جسامت کے حساب سے ہمارے دماغ کا حجم کافی بڑا ہے۔ ارتقا کے دوران دماغ بڑے سے بڑا ہوتا رہا ہے۔ اس بڑے دماغ نے ہمیں اوزار بنانے اور آگ کے استعمال میں مدد دی ہے اور یوں ہم اس مغز کو اچھی غذائیت بہم پہنچانے کے قابل ہو سکے۔ ہمارے ذہنی افق کی وسعتیں اسی بڑے دماغ کی مرہون منت ہیں۔ ہم بہتر سے بہتر اوزار و ہتھیار بناتے گئے۔ شکار و حفاظت کی تکنیک میں نفاست لاتے گئے۔ ہم نے پیچیدہ سماجی ڈھانچے بنائے اور سب سے بڑھ کر قوت گویائی حاصل کی۔

3۔ دونوں جنسوں میں جسمانی تفاوت کم ہونا۔ دوسرے جانوروں کی نسبت ہمارے نر اور مادہ میں جسمانی تفاوت بہت کم ہے۔ یوں ہمارے نر بچوں یعنی مرد میں دوسرے نروں کے خلاف خوامخوا کے جارحانہ رحجان میں نمایاں کمی ہوتی گئی اور ہم بڑی آبادیاں اور تہذیبیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

4۔ طویل بچپن۔ دوسرے ممالیہ جانوروں کے مقابلے میں انسان کا عہد طفولیت عرصہ رضاعت کے ساتھ ختم نہیں ہوتا بلکہ کئی سال تک جاری رہتا ہے۔ اسی لیے ہم مجبور ہوئے کہ خاندانوں اور توسیع شدہ سماجی ڈھانچوں میں رہیں جہاں بچوں کی بہتر نگہداشت ممکن ہو۔

5۔ درست دستی گرفت۔ ہاتھ کی مخصوص ساخت بالخصوص ہمارے انگوٹھوں کی ہمہ جہت حرکت ہمیں مختلف اوزاروں کی ایجاد کی مہارت عطا کرتی ہے۔

جہاں شوکیس میں کھوپڑیاں سجائی گئی ہیں وہیں نقشہ بنا کر ان کے ظہور اور معدومیت کا عرصہ بھی لکھا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ کوئی 25 لاکھ سال ہوئے جب انسان صفحہ ہستی پر ابھرے تھے۔ ان کی مختلف ملتیں وجود پاتی اور مٹتی گئیں۔ بالآخر کوئی 3 لاکھ سال قبل ہمارے اسلاف نمودار ہوئے۔ لیکن اس سے بھی 1 لاکھ سال پہلے سے ایک اور نوع بشری نینڈرتھل پھل پھول رہی تھی۔ شواہد ہیں کہ ہماری نسل اور نینڈرتھل نے نسلی امتیاز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپس میں عشق و عاشقی بھی کی لیکن کوئی 40 ہزار سال قبل نامعلوم وجوہات کی بنا پر نینڈرتھل پوری طرح صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ پھر اس کرہ ارض پر انسانیت کے نام لیوا ہم ہی بچ رہے۔ میوزیم میں نینڈرتھل آدمی کا بہت خوبصورت مجسمہ موجود ہے جس کی تشکیل میں ڈی این اے کا اہم کردار ہے۔ اس کا چہرہ تاثرات سے پُر ہے۔ لگتا ہے ابھی چلنے لگے گا۔

طب اور فزیالوجی کا نوبل انعام

اس سال یہ انعام سویڈش ماہر جینیات سوانتے پیبو کو ملا ہے۔ انہوں نے سائنس میں ایک نئی جہت پیلیو جینیٹکس کی بنیاد رکھی ہے جس میں معدوم نوع انسانی کے جینز کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ وہ پہلے سائنسدان ہیں جنہوں نے 40 ہزار سال قبل معدوم ہونے والی نسل نینڈرتھل کے جینوم یعنی تمام جینیاتی مواد کی ترتیب طے کی۔ یہ انتہائی مشکل اور عرق ریزی کا کام ہے۔ اس دوران یہ انکشاف ہوا کہ انسانوں میں پائی جانے والی کئی بیماریوں مثلاً ٹائپ ٹو ذیابیطس، بلیری سیروسس، کرون کی بیماری، ڈپریشن، جلدی سرطان، حساسیت وغیرہ کا واسطہ کہیں نہ کہیں نینڈرتھل جین سے ملتا ہے۔



یاد رہے کہ ہمارے جد امجد اور نینڈرتھل کے اختلاط سے بچے پیدا ہوئے چنانچہ تقریباً 2 فیصد یورپی باشندوں اور ان سے کہیں زیادہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیائی نسلوں میں نینڈرتھل جینز پائے جاتے ہیں۔ حالیہ عالمی وبا میں انکشاف ہوا کہ نینڈرتھل جینز کے ایک تغیر (ویریئنٹ) کی موجودگی کورونا کے مریضوں میں شدید علامات پیدا کرتی ہے اور موت کے خطرے کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے جبکہ اسی جینز کا ایک دوسرا تغیر کوویڈ سے مضبوط ترین مدافعت عطا کرتا ہے۔ امکان پیدا ہو گیا کہ جینز میں آخرالذکر تغیر پیدا کرکے آئندہ نسلوں کو کورونا سے مکمل حفاظت فراہم کی جا سکتی ہے۔

جینیاتی معالجے کا بڑھتا ہوا کاروبار

بڑے بڑے دوا ساز ادارے پچھلے کئی سالوں سے جین تھراپی پر کام کر رہے ہیں۔ اب تک کچھ امراض کی ادویات بازار میں لائی جا چکی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ انتہائی مہنگی دوائیں ہیں۔ مثلاً ایک خاص قسم کے موروثی اندھے پن ریٹینل ڈسٹروفی کی جینیاتی دوا کی ایک خوراک کی قیمت ساڑھے 8 لاکھ ڈالر ہے جبکہ نووارٹس کمپنی کی پیش کردہ خون کے سرطان لیوکیمیا کی جین تھراپی پونے 5 لاکھ ڈالر کی پڑتی ہے۔ ان اعداد کو 220 سے ضرب دے کر پاکستانی روپوں میں لاگت معلوم کی جا سکتی ہے۔

جینیاتی تحقیق ایک جانب بیماروں کے لیے مژدہ جانفزا ہے لیکن دوسری جانب گمان گزرتا ہے کہ یہ سامراجیت کی ایک نئی قسم کو وجود میں لائے گی جس میں ترقی یافتہ اقوام میں بنی قیمتی ادویات پسماندہ اقوام کی مزید غربت اور دست نگری کا سبب بنیں گی۔ اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ ہم بھی اپنے یہاں سائنسی طرز فکر کو عام کریں اور اختراع و ایجاد کی حوصلہ افزائی کریں۔