آن لائن ہراسانی؛ 57 فیصد شکایات کے ساتھ پنجاب پہلے نمبر پر

آن لائن ہراسانی؛ 57 فیصد شکایات کے ساتھ پنجاب پہلے نمبر پر
ایمن حبیب (فرضی نام) کراچی کی رہائشی ہیں۔ 2019 میں اس وقت آن لائن ہراسانی کا شکار ہوئیں جب انہوں نے عالمی وبا کورونا میں لاک ڈاؤن کے دوران اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ملکی اور بین الاقوامی حالات پر اپنی رائے پوسٹ کرنا شروع کی۔ کچھ دن میں پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا اور فیس بک سے متصل پیغام رسانی کی ایپ میسنجر پر بھی لوگوں نے انہیں پیغامات بھیجنے شروع کر دیے۔ اسی دوران 12 دسمبر 2019 کو ان کا فیس بک اکاؤنٹ ہیک ہوا اور ہیکر نے ان کے موبائل کی گیلری تک رسائی حاصل کر لی۔ ہیکر نے ان سے 20 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تاہم ایمن نے اس مطالبے پر خاموشی برتی۔ ہیکر کا مطالبہ زور پکڑتا گیا اور ہیکر نے ان کی ذاتی تصاویر ان کو بھیجنا شروع کیں جس پر ایمن نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو تحریری طور پر آگاہ کیا تاہم ایف آئی اے کو شکایت موصول ہونے کے باوجود وہ کوئی مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام رہا۔ اسی دوران یعنی سال 2020 میں ایمن کی شادی ہوئی۔ ایمن نے بتایا کہ شادی کو کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ ہیکر نے پھر دھمکی آمیز پیغامات بھیجنا شروع کر دیے۔ ایک پیغام میں ہیکر نے دھمکی دی کہ اگر اس کا مطالبہ پورا نہیں کیا گیا تو وہ ان کی ذاتی تصاویر ان کے شوہر اور سسرال کے کئی دیگر افراد کو بھیج دے گا۔

ایمن نے شادی کے بعد اپنے شوہر سے اس معاملے کا ذکر نہیں کیا تھا۔ ایمن نے بتایا کہ ایک ہفتے بعد میرے شوہر سمیت سسرال کے کئی افراد کو ہیکر نے میری ذاتی تصاویر بھیج دیں۔ میرے شوہر اور سسرال والوں کو جب تصاویر موصول ہوئیں تو کسی نے بھی میری بات پر بھروسہ نہیں کیا اور سب نے مجھے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ چند روز میں میرے شوہر کو اتنا مجبور کیا گیا کہ اس نے مجھے طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا۔ تاہم اس دوران ایف آئی اے نے ملزم کو کراچی کے علاقے گلستان جوہر سے تحویل میں لے لیا۔ جب مجھے پتہ چلا کہ ملزم میرے ساتھ پچھلے دفتر میں کام کرتا تھا تو مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایسا کر سکتا ہے۔ ملزم کی گرفتاری کے بعد میرے سسرال والوں کو یقین آ گیا اور یوں میرا گھر ٹوٹنے سے بال بال بچ گیا۔ ایمن نے مزید بتایا کہ اس دوران انہوں نے فیس بک کو کئی مرتبہ ای میل کے ذریعے سے اپنی شکایت بیان کی تاہم فیس بک نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔

پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین خاص طور پر خواتین صارفین کی جانب سے آن لائن ہراسانی کی شکایات پر ٹیکنالوجی کمپنیاں کوئی کارروائی کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، اس پر ہم نے فیس بک اور واٹس ایپ کو کچھ سوالات بھیجے۔ فیس بک نے تو ان سوالوں کے جواب دے دیے مگر واٹس ایپ نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔

اس حوالے سے ہم نے کئی خواتین سوشل میڈیا صارفین سے یہ سوال پوچھا کہ جب وہ آن لائن ہراسانی کا شکار ہوئیں اور متعلقہ پلیٹ فارم پر اپنی شکایت درج کروائی تو کیا ان کی شکایت پر عمل کیا گیا؟ اس کے جواب میں تمام خواتین صارفین نے بتایا کہ کئی بار شکایت درج کروانے کے باوجود فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر ٹیکنالوجی کمپنیاں انہیں کوئی جواب نہیں دیتیں۔



اس معاملے پر ہم نے فیس بک کی سپورٹ ٹیم سے مؤقف جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ چونکہ آن لائن ہراسانی کا معاملہ سنگین ہے، اس لیے ہم نے پرائیویسی پالیسی کے سخت قوانین بنائے ہیں اور صارفین چاہیں تو ان پرائیویسی آپشنز کو استعمال کر کے اپنے فیس بک اکاؤنٹس کو کسی حد تک محفوظ بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ان کا کوئی عارضی دفتر نہیں ہے جس کے باعث اکثریتی کیسز میں صارفین کی مدد کرنے میں وہ کمزور ثابت ہوتے ہیں۔ اگرچہ فیس بک نے یہ تو نہیں بتایا کہ پاکستان میں دفتر نہ ہونے کی کیا وجوہات ہیں تاہم انہوں نے یہ ضرور بتایا کہ ہم بوقت ضرورت حکومت پاکستان کے متعلقہ اداروں کو صارفین کی جانب سے درج کروائی گئی شکایت کا مکمل احوال بذریعہ ای میل بھیج دیتے ہیں۔

یہ جاننے کے لیے کہ گزشتہ سال ملک بھر میں آن لائن ہراسانی سے متعلق کتنی شکایات سامنے آئیں، ہم نے ایف آئی اے سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ ایک غیر سرکاری ادارے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے مطابق ان کی ہیلپ لائن پر گزشتہ سال 4 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 1600 کے قریب شکایات ذاتی نوعیت کی تصاویر کے غیر مجاز استعمال سے متعلق تھیں۔ اعدادوشمار کے مطابق مجموعی طور پر 30 فیصد شکایات مرد حضرات نے درج کرائیں جنہیں آن لائن ہونے کے دوران ہراساں کیا گیا۔ ادارے نے بتایا کہ موصول ہونے والی ان شکایتوں کے جواب میں تمام صارفین کو قانونی معاونت فراہم کی گئی۔

پاکستان ڈیٹا پورٹل کی ویب سائٹ پر موجود اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً 83 لاکھ افراد انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا تک رسائی 73 لاکھ لوگوں کو حاصل ہے جن میں سے 22 فیصد خواتین جبکہ 78 فیصد مرد ہیں۔ صنفی برابری کے حوالے سے پاکستان اس وقت بھی بین الاقوامی سطح پر بہت پیچھے ہے اور اس کی ایک دلیل سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد میں فرق سے بھی ملتی ہے۔

پاکستان میں گزرے سال سے اب تک آن لائن ہراسانی نے نامور خواتین کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے جن میں عاصمہ شیرازی، غریدہ فاروقی اور فردوس عاشق اعوان شامل ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے بدلتے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے پیکا کا قانون متعارف کروایا گیا۔ یہ قانون بالخصوص آن لائن ہراسانی کے مسائل و مقدمات سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ مئی 2020 میں پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل کا ڈرافٹ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے جاری کیا گیا تھا جس پر ماہرین اور عام لوگوں سے تجاویز طلب کی گئی تھیں۔ سابق وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چودھری تصدیق کر چکے ہیں کہ ان کی وزارت پاکستان میں شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے نئے قوانین لانے پر غور کر رہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ حکومت شہریوں کی پرائیویسی کے تحفظ کے لیے مؤثر قانون زیر غور لائے گی۔

شکایات کی بڑھتی تعداد اور ایف آئی اے کی خاموشی نے تب ذہن کو مزید الجھا دیا جب ایک خاتون صحافی کی جانب سے ان کی تصاویر کو ان کی مرضی کے بنا استعمال کرنے کی درخواست دینے کے باوجود ایف آئی اے نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ چھ ماہ گزرنے کے بعد ایف ائی اے سے اسی درخواست اور پیکا کے قانون کے تحت موصول ہونے والی تمام درخواستوں اور ان پر ہونے والی کارروائی کی تفصیل معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت مانگی گئی۔ ایف ائی اے تب بھی آٹھ ماہ مسلسل خاموش رہا اور پاکستان انفارمیشن کمیشن کے بار بار بلانے پر بھی کوئی جواب نہ دے سکا۔ یہ مجرمانہ خاموشی آج بھی جاری ہے۔ پاکستان انفارمیشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اس کیس سے متعلق نوٹیفکیشن کے مطابق ایف آئی اے کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ تمام معلومات اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرے تا کہ عوام کو پتہ چل سکے کہ ان کی درج کرائی گئی شکایات پر کیا کام ہوا، کیا فیصلہ ہوا اور کون کون سے مجرم پکڑے گئے۔

آن لائن ہراسانی کے بڑھتے واقعات کی وجوہات
پاکستان میں سائبر کرائمز کے زمرے میں سب سے بڑی تعداد ان شکایات کی ہے جن کا تعلق ہراساں کیے جانے یا بلیک میلنگ سے ہے۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی جانب سے 2021 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق فاؤنڈیشن کی سائبر سپیس میں ہراساں کرنے کے خلاف شکایت سننے کے لیے قائم کردہ ہیلپ لائن کو گزشتہ سال کے مقابلے میں 70 فیصد سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔ فاؤنڈیشن کے اعدادوشمار کے مطابق ان میں سے زیادہ تر کیسز بلیک میلنگ اور بھتہ خوری سے متعلق تھے جو کل واقعات کا 33 فیصد بنتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کیسز میں فرد کی ذاتی معلومات، تصاویر یا نفسیاتی جوڑ توڑ کا استعمال کر کے ڈرانے دھمکانے یا کوئی مطالبہ پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔ 23 فیصد شکایات کا تعلق ہیکنگ سے ہے جس میں لوگوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے فرد کی معلومات جیسا کہ تصاویر وغیرہ کا غلط استعمال کیا گیا۔

ایسی شکایات میں سے 57 فی صد شکایات ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے سامنے آئیں۔ اس کے بعد سندھ میں 11 فی صد، خیبر پختونخوا اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے موصول ہونے والی شکایات کی تعداد 4.4 فی صد رہی۔ شکایت درج کرانے والوں میں سے اکثریت خواتین کی تھی جو کل واقعات کی 66 فی صد بنتی ہیں۔ بیشتر خواتین کو فیس بک اور واٹس ایپ پر ہراساں کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مندرجات کے مطابق ان کیسز میں ملک میں پسماندہ سمجھے جانے والے طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد انتہائی کم رہی تاہم اس کی وجہ اس بارے میں پائی جانے والی معاشرتی رکاوٹوں کو قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ان کے خلاف آن لائن یا آف لائن پائے جانے والا امتیازی رویہ بدستور موجود ہے جو رپورٹ میں ظاہر نہیں ہو سکا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے جرائم کا نشانہ بننے والوں میں سے اکثر کو جرم رپورٹ کرانے کے لیے ایف آئی اے کے دفاتر تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ یہ دفاتر اب بھی آبادی کے بڑے حصے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ سائبر کرائم ونگ کو شکایت درج کرانے کے لیے شکایت کنندہ کو ذاتی طور پر پیش ہونا پڑتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 17 فیصد آن لائن ہراسانی کی شکایات ان علاقوں سے رپورٹ ہوئی ہیں جہاں ایف آئی اے کے دفاتر واقع نہیں ہیں۔ تاہم یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہے۔ اس کی وجہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے دفاتر کو کئی شہروں میں کھولا جانا بھی ہے۔

رپورٹ تیار کرنے والے مصنفین نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس رپورٹ سے اگرچہ ملک میں آن لائن ہراساں کرنے کے واقعات کی کل شکایات کا پتا نہیں لگایا جا سکتا لیکن اس کے باوجود ہیلپ لائن کے تحت رجسٹرڈ کی جانے والی شکایات کی بڑھتی ہوئی تعداد اس اہم مسئلے کی جانب نشان دہی کے لیے کافی ہے۔ ڈیٹا کے مطابق 68 فیصد کالز خواتین، 30 فیصد مردوں اور ایک فیصد خواجہ سراؤں نے کیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں آن لائن ہراساں کیے جانے کے سب سے زیادہ کیسز واٹس ایپ کے تھے جس کے بعد فیس بک کا نمبر آتا ہے۔ 2021 میں موصول ہونے والی 893 شکایات بلیک میلنگ کے حوالے سے تھیں، 727 کیسز تصاویر کے بغیر اجازت کے استعمال سے متعلق تھے۔ رپورٹ میں پالیسی سازوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صورت حال سے نمٹنے کے لیے تجاویز بھی دی گئی ہیں۔

ڈیجیٹل رپورٹس فاؤنڈیشن نے مطالبہ کیا کہ پریونٹیشن آف الیکٹرونکس کرائم ایکٹ (پیکا) کی شق 53 کے مطابق ششماہی رپورٹ کا اجرا یقینی بنانے کے ساتھ عوام تک اس کی رسائی ممکن بنائی جائے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے کیسز سے نمٹنے کے لیے بہتر میکنزم کی تشکیل کا مشورہ دیا گیا جس کا ذکر پیکا ایکٹ کی شق 1 (4) میں بھی کیا گیا ہے۔ ڈی آر ایف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نگہت داد نے کہا کہ آن لائن ہراساں کرنے کے کیسز میں اضافہ خطرے کی گھنٹی ہے اور اسے مدنظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کیے جانے چاہئیں جن سے انٹرنیٹ کو ہر ایک کے لیے محفوظ اور مساوات پر مبنی بنایا جا سکے۔

ڈان اخبار میں لکھے گئے مضمون میں اسامہ خلجی کا کہنا تھا کہ مجوزہ بل میں نجی کمپنیز کو اپنے صارفین کا ڈیٹا محفوظ بنانے کا پابند بنانے کی بات کی گئی ہے۔ بل میں ذاتی معلومات جیسے فون نمبرز، کال ریکارڈز، شناخت کی معلومات، صحت کے ریکارڈ اور شہریوں کے پتے بیچنے، ہیک کیے جانے، لیک ہونے یا دیگر طریقوں کے غلط استعمال کے نتائج کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ تاہم بل کے تحت ڈیٹا پروٹیکشن کے لیے ایک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جانا ہے۔ انہوں نے بل میں ڈیٹا پروٹیکشن اتھارٹی کو آزاد اور خود مختار ہونے کے بجائے وفاقی حکومت کے ماتحت کام کرنے پر اعتراض اٹھایا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ اس کے علاوہ حکومت اور عوامی اداروں پر ڈیٹا کے تحفظ کی ذمہ داری بھی واضح نہیں کی گئی جو اس طرح کے کسی بھی قانون کا ایک اہم جزو ہونا چاہئیے۔

فیصل رحمان کراچی میں مقیم ہیں اور فری لانس جرنلسٹ ہیں۔ انہوں نے فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ابلاغیات عامہ کی تعلیم حاصل کی ہے اور 2013 سے شہری حقوق، انسانی حقوق اور کلائمیٹ چینج سے متعلق مختلف موضوعات پر قلم کشائی کر رہے ہیں۔