حنا ربانی کھر طالبان کو شرم دلانے افغانستان گئی تھیں

حنا ربانی کھر طالبان کو شرم دلانے افغانستان گئی تھیں
13 دسمبر کو پارلیمنٹ میں مولانا اکبر چترالی فرماتے ہیں کہ دیکھ لو نتیجہ اللہ تعالیٰ کے احکامات سے رُوگردانی کا۔ چمن بارڈر پر افغانستان نے دھاوا بول دیا۔ ہمارے 6 بندے (جو اب 8 ہو چکے ہیں) شہید کر دیے! اور بھیجو کابل ایک زن وزیر مملکت خارجہ (حنا کھر) کو۔ عذاب الہیٰ نہ آئے تو کیا من و سلوی اترے؟

علما مر گئے تھے کیا؟ نر وزیرِ خارجہ ہی کو بھیج دیا ہوتا۔ بہتر ہوتا علما اور مقامی قبائلی عمائدین کا وفد بھیجا جاتا۔ صرف وہی کامیابی و کامرانی کے جھنڈے گاڑ سکتا تھا۔ عورت کا اصل مقام تو گھر کی چار دیواری ہے۔ کسی نے بھی صنفِ نازک کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ جب خواتین اراکین نے احتجاج کیا اور انہیں جواب دیتے دیتے مولانا کا شوگر لیول قابو سے باہر ہو گیا تو چلّانے لگے: 'میں اپنے باپ کا بیٹا ہوں۔ میں اپنے باپ کا بیٹا ہوں!'

یہ بتلانے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ عورتوں کے بارے میں ان کے اعلیٰ و ارفع خیالات و تصورات یہ غمازی کر رہے تھے کہ انہیں نو ماہ ان کے والد نے ہی اپنے پیٹ میں پال پوس کر باہر نکالا تھا۔ دودھ بھی والد ہی کی چھاتی میں اترا تھا۔ جب یہ مریں گے اور روز قیامت اپنے خالق کے حضور پیش ہوں گے تو باقی حضرات کو ان کی ماؤں کے نام مگر انہیں ان کے باپ کے نام سے پکارا جائے گا۔ البتہ ان کے باپ کو اُن کی ماں کے نام سے پکارا جائے گا۔ اور ان کے والد یقیناً اپنی والدہ کے بطن سے ہی پیدا ہوئے ہوں گے۔ اور وہ جنت بھی اپنی والدہ کے قدموں میں ہی تلاش کر رہے ہوں گے۔ مگر ہو سکتا ہے یہ جنت ڈھونڈنے میں ناکام و نامراد ہو جائیں کیونکہ اسے یہ باپ کے قدموں تلے کھوج رہے ہوں گے۔

دراصل چترالی صاحب کا کوئی قصور نہیں۔ جن خواتین نے چترالی صاحب کو ترکی بہ ترکی جواب دیا یہ کہہ کر کہ ٹوپی کے نیچے اسلام نہیں ہوتا یا ایسا ہی کچھ اور۔۔ کوئی فائدہ نہیں۔ کالی رنگت والے شخص کو اگر اس نیک نیتی سے رگڑ رگڑ کر نہلایا جائے کہ وہ سفید رنگ کا ہو جائے گا تو یہ فضول ہے۔ الٹا دنیا غسال کو احمق گردانے کی۔

چترالی صاحب اور ان تمام حضرات سے ہمیں ہمدردی ہونی چاہئیے جنہیں ایک خاص مکتبہ فکر کے حامل اسلاف نہ جانے کب سے اپنے عقیدے کا 'شاہ دولے کا چوہا' بناتے آئے ہیں۔ یہ کاروبار آج بھی عروج پر ہے۔ سرمایہ کاری صفر مگر منافع بے پناہ۔ البتہ ان حضرات سے اتنا ضرور پوچھنا چاہئیے کہ حضور کیا آپ نے یا آپ کے اسلاف نے مختاراں مائی یا اس معصوم ایسی دیگر عورتوں کے حق میں آواز اٹھائی، ان کی دلجوئی کی جنہیں سر بازار ننگا کیا کیا۔ گلی گلی اسی حالت میں پھرایا گیا۔ پھر اجتماعی آبرو ریزی کی گئی؟ ہم تو بچپن سے مطالعہ پاکستان کی 'سچی' کتابوں میں یہی پڑھتے آئے کہ حجاج بن یوسف کو اپنے واٹس ایپ پر ایک معصوم لڑکی کا وائس میسج آیا جس کی پکار پر محمد بن قاسم کو سندھ پر کھلا چھوڑ دیا گیا۔ اس طرح یہ تاریک خطہ اسلام کی روشنی سے منور ہو گیا۔ قاسم کی اولاد کی غیرت کہاں غرق ہوئی۔ آئے دن عورتوں سے اجتماعی زیادتی ہوتی ہے۔ اس کے بعد انہیں قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ کل ایک پانچ سالہ افغان بچی کے ساتھ کراچی میں زیادتی ہوئی۔ اس کے بعد اسے قتل کر دیا گیا۔ چترالی صاحب کچھ بولے؟

ان لوگوں کو بہت ملال ہے کہ عورتوں کو گھر کی چار دیواروں میں قید نہ رکھ سکے۔ ایک چار دیواری توڑ کر اس ملک کی دو بار وزیر اعظم بن گئی۔ ایک 9 سال کی عمر میں ہی دنیا کی کم سن ترین Microsoft Certified Professional بن گئی۔ صرف 16 برس کی عمر میں یہ دنیا چھوڑ گئی۔ اور ایک ہماری بیٹی ملالہ یوسف زئی جسے اگلے جہان پہنچانے میں طالبان نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، دنیا کی سب سے کم عمر نوبل یافتہ بن گئی۔ چلو بھئی ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں گھر کی چار دیواری میں ہی عورت کی عفت محفوظ ہے لیکن آپ تو اسے قبر میں بھی نہیں چھوڑتے! اس ملک میں دو دو تین تین سال کی بچیوں کا زیادتی کے بعد قتل ہوتا ہے۔ جوان و بوڑھی مردہ خواتین کو قبر کھود کر جنسی تسکین کے لیے نکالا جاتا ہے۔ تو حضور شیطانیت آپ میں ہے۔ بدکردار آپ ہیں، عورت نہیں۔ آپ کا کردار تو 'چھاتی کے کینسر' کے آگاہی پیغام میں موجود لفظ 'چھاتی' اور پُتلوں یعنی mannequin جن پر ملبوسات چڑھائے جاتے ہیں، سے ہی ڈگمگا جاتا ہے۔

عورتوں سے آپ کا ازلی حسد فی الحال ایک طرف۔ جب آرمی پبلک سکول پشاور میں 140 سے زائد معصوم بچے اور بچیوں کا قتل عام ہوا تھا۔۔۔ یاد بھی ہے یا نہیں؟ اس وقت چترالی صاحب یا ان کے آباؤاجداد نے کوئی مذمت کی تھی؟ اب ہمیں آپ یہ سکھا رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی کو تو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اگر ہے تو کیوں نہیں کہتے چلّا چلّا کر پارلیمنٹ میں کہ ٹی ٹی پی والے بھارتی ایجنٹ ہیں؟ آپ تو انہیں 'اپنا بچہ' کہتے ہیں۔

اور حضور آپ لوگوں کی یادداشت بہت ہی کمزور ہے۔ کوئی کُشتہ لیجئے، کوئی خمیرہ گاؤ زبان، کوئی منقّہ، اخروٹ انجیر! وہ جو مفتی تقی عثمانی صاحب جولائی 2022 میں علما کی فوج لے کر کابل سدھارے تھے تو کون قلعہ فتح کر کے لوٹے تھے؟ ٹھینگوا دکھایا تھا ٹی ٹی پی نے۔ صاف کہہ دیا کہ نہیں مانتے ڈیورنڈ لائن کو۔ نہیں مانتے کے پی کو۔ علاقہ غیر کو 'غیروں' کا ہی رہنے دو۔ فاٹا بحال کرو۔ کس منہ سے یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ حنا کھر کی جگہ علما جاتے تو کابل فتح کر کے لوٹتے!

اور آپ فرماتے ہیں کہ بلاول کو ہی بھیج دیا ہوتا۔ اگر ایسا کر دیتے تو آپ کہتے اس سے بہتر تھا کسی عورت کو ہی بھیج دیتے۔ یہ بیچ کی چیز کیوں بھیج دی کابلی پٹھانوں کے پاس! یعنی آپ کو کسی کروٹ قرار نہ آنا تھا۔

آپ اسلام کے واحد ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں۔ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ اسلام کی پہلی Entrepreneur کائنات کی سب سے عظیم ہستی حضرت محمدﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہؓ بنت خویلد تھیں۔ موجودہ دنیا میں ایک اصطلاح ہے آؤٹ سورسنگ کی۔ اسلام کی پہلی آؤٹ سورسنگ حضرت خدیجہؓ نے کی آنحضورﷺ کی خدمات اپنے کاروبار کے لئے حاصل کر کے۔ دنیا کے موجودہ کنٹریکٹ ایکٹ میں ایجنٹ اور پرنسپل نامی اصطلاحات ہیں۔ یہ بھی حضرت خدیجہؓ ہی کی دین ہیں۔ وہ پرنسپل تھیں اور آنحضورﷺ نے بطور ان کے ایجنٹ ان کے کاروبار کو پھیلایا۔ آج یہ لوگ عورت کو کمتر ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں!

Emirates Airlines عربیوں کی ہے۔ انہوں نے تو اب عورتوں کو پائلٹ بھی رکھنا شروع کر دیا ہے۔ ہماری پاکستانی بیٹیاں بھی اب ایف سولہ طیارہ ایسے اڑا رہی ہیں جیسے بچوں کا کھیل ہو۔ لنڈی کوتل میں کچھ بیٹیوں نے سائیکل کیا چلا لی مولویوں کو اسلام خطرے میں نظر آنا شروع ہو گیا۔ جماعت اسلامی نے تو مظاہرہ بھی کیا باقاعدہ اور وہی پرانا بھاشن عورت کا درست مقام گھر کی چار دیواری۔ اگر ان کی عورت بیمار پڑ جائے تو مرد ڈاکٹر کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے۔ لیڈی ڈاکٹر کے متمنی ہوتے ہیں۔ عورت چار دیواری میں مقید رہے گی تو کیا خاک معالج و جراح بن پائے گی۔

ابھی ابھی ایک دوست نے فون پہ بتایا کہ چکلالہ کنٹونمنٹ کے درجن بھر لمبی داڑھیوں والے لڑکے جو لاٹھی لے کر گداگروں کو بھگاتے ہیں ایک خواجہ سرا کو ستا رہے تھے۔ کہیں وہ انہیں یہ کہہ بیٹھا کہ وہ بھکاری نہیں بلکہ خواجہ سرا ہے۔ انہوں نے اس امر کو یقینی بنانے کے لیے اسے سر بازار برہنہ کیا۔ بیچارہ الف ننگا خواجہ سرا رو رہا تھا۔ ایسے میں ایک عورت اپنی گاڑی سے اتری۔ کنٹونمنٹ کے 'باریش غنڈوں' کو خوب سنائیں۔ خواجہ سرا پر اپنی چادر ڈالی اور اپنی گاڑی میں بٹھا کر چل دیں۔ یہ جہاد کسی مرد یا مولوی نے نہیں ایک عورت نے کیا۔ شکر ہے اللہ تعالی کا کہ وہ خاتون چار دیواری میں قید نہ تھی۔ ہوتی تو گھر سے باہر تک نہ نکل سکتی، گاڑی چلانا تو دور کی بات!

جس دولے شاہ کے چوہے کو گز بھر داڑھی، ٹخنوں سے اوپر شلوار، مسواک، عطر، جُبے اور چار دیواری ایسی آہنی ٹوپی پیدا ہوتے ہی پہنا دی گئی ہو اسے کیسے سمجھایا جائے کہ ایک خاتون کو کابل بھیجنے میں کیا حکمت مضمر تھی۔ کیا افغانستان میں عورتیں نہیں ہوتیں؟ شرم دلانے کو بھیجا تھا! یہ بتانے کے لیے کہ ہم دنیا کے ہر ملک سے ہر چیز میں پیچھے سہی مگر عورت کی آزادی کے حوالے سے بین الاقوامی رپورٹوں میں ابھی تک ٹوٹے پھوٹے افغانستان سے ایک نمبر اوپر ہی ہیں۔ ہماری عورت زندگی کے ہر شعبے میں مرد سے بہتر ہی جا رہی ہے۔ مجھے تو طالبانوں کے چہرے سے ٹپکتی شرم واضح نظر آ رہی تھی جب کس شان سے حنا کھر جہاز سے سر بلند کر کے اتری! ہر ماں، بیٹی، بہن کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ شاباش حنا ربانی کھر!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔