'پروجیکٹ عمران کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ متنازعہ ضرور ہوئی ہے مگر نیوٹرل نہیں ہوئی'

'پروجیکٹ عمران کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ متنازعہ ضرور ہوئی ہے مگر نیوٹرل نہیں ہوئی'
ہم اگر ووٹوں کی سیاست سے دور جائیں گے تو یہ پہلا قدم ہو گا کہ جمہوریت سے دور جا رہے ہیں۔ یہ آئین ہمیشہ سے ایک سایے میں رہا ہے، سیاست کہیں اور جبکہ طاقت کہیں اور رہی ہے۔ آج جو اجلاس ہو رہا ہے اس میں آئین کی کچھ شقیں زیر بحث ہیں۔ پارلیمنٹ کے باہر آئین کی اپنے مطلب کی تشریح کر کے سایسی پوائنٹ سکورنگ کی جا رہی ہے۔ پاکستان کا آئین مسلسل تعمیر کے مرحلے میں ہے، ہر کوئی اپنے مطلب کی تشریح کر رہا ہے۔ یہ معاملہ عدالتوں کی طرف جائے گا تو یہ سیاسی معاملہ ہو گا اور عدالتیں سیاسی معاملات کو نہیں دیکھ سکتیں۔ اس وقت اتحادی حکومت کے لیے ووٹ سب سے بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ اگر الیکشن میں عمران خان جیت جاتے ہیں تو پھر کیا ہو گا۔ یہ کہنا ہے معروف دانش ور اور مصنف ڈاکٹرمحمد وسیم کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر وسیم نے کہا کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے دو چہرے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ حکمت عملی بناتے ہیں۔ انہوں نے ابھی بھی ہلچل مچا دی ہے کیونکہ سیاسی استحکام ختم ہو گیا ہے۔ یہ عمران خان کا بڑا اقدام تھا۔ دوسری طرف ایک پاگل پن ہے۔ ان کا سیاسی گالم گلوچ اور سیاسی مخالفین کو غدار وغیرہ قرار دینا شامل ہے۔ انتخاب سے پہلے عوام کی سوچ اور رائے کی بہت اہمیت ہے اور اس کو بنانے کے لیے عمران خان نے انتہا پسندانہ رویہ اپنایا ہے۔ جنرل باجوہ کے خلاف ان کا ردعمل شدید ہے۔ اس چنگل میں وہ پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں موجودہ سیاسی ٹکراؤ سے پہلے کسی طرح مذاکرات ہو جانے چاہئیں تھے۔

ڈاکٹر وسیم نے مزید کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ابھی بھی بہت اختیار ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اسٹیبلشمنٹ کا اب پاکستان کی سیاست میں کوئی کردار نہیں رہا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اتنے برے حالات میں کبھی بھی نہیں رہی جتنے برے حالات میں اب ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایوب کے زمانے سے جو ایک تاثر تھا کہ وہ سب سے بلند اور اعلیٰ ہے، وہ 2017 کے بعد کم ہو گیا ہے کیونکہ انہوں نے ایک پروجیکٹ اپنے گلے میں ڈال لیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے موروثی سیاست کو ختم کرنے کے لیے عمران خان کی صورت میں ایک سیاسی گروہ بنایا۔ ان کو اب اس بات کا احساس ہوا ہے کہ وہ غلط تھے۔ اب اسٹیبلشمنٹ متنازعہ ہو گئی ہے مگر وہ نیوٹرل اب بھی نہیں ہے۔ عمران خان کے پروجیکٹ کو سمیٹنے کے لیے ان کا کتنا کردار ہونا چاہئیے، اس حوالے سے معاملہ کافی گھمبیر ہے۔

اگر پنجاب میں وزیر اعلیٰ برخاست ہوتے ہیں تو سیاسی انتشار بڑھے گا اور عمران خان اپنی سیاسی سٹریٹ پاور کو استعمال کریں گے۔ اسٹیبلشمنٹ متنازعہ ہونے کے بعد خود کو معدوم رکھنا چاہتی ہے مگر عوام اور تجزیہ کار اس کو ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ اگر الیکشن ہوتے ہیں تواس صورت میں اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار نہیں رہ سکے گی۔ اس وقت قوم تقسیم ہو چکی ہے۔ عمران خان کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا فائدا ہوا ہے۔ پڑھے لکھے لوگوں میں اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں منفی رویہ پایا جاتا ہے جس کا روح رواں عمران خان ہے۔سیاست دانوں کے خلاف جو معاشرے میں ایک منفی رائے پائی جاتی ہے اس کا نمائندہ بھی عمران خان ہی ہے۔

تجزیہ کارعائشہ صدیقہ نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی شخصیت کو جتنا اپنایا تھا اور سپورٹ کیا تھا اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے لیے اس کو لپیٹنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے ان کو فوج کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ دیا ہے جبکہ باقی سارے سیاست دان ایسا نہیں کر پا رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کو کے پی کے سے سکیورٹی خطرات ہیں۔ سکیورٹی کے ادارے اس وقت منتشر ہیں کیونکہ وہ عمران خان والے معاملے پہ لگے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان بھی عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں۔ عمران خان کی حکومت میں دارالعلوم حقانیہ جیسے خطرناک مدرسوں کو مالی امداد دی گئی جس کی وجہ سے عمران خان کی طالبان میں حمایت موجود ہے۔

عائشہ صدیقہ نے کہا کہ عمران خان کو کرپٹ سیاسی عناصر کے خلاف جنگ کرنے والا اور ان کرپٹ لوگوں سے بچانے والا سمجھا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ عوام کو کوئی اور آپشن نظر نہیں آتا۔ فوج اور اسٹبلیشمنٹ کوعمران خان سے جان چھڑوانے کے لیے کوئی متبادل نظر نہیں آ رہا مگر اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کا کوئی متبادل لانا پڑے گا۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔