'فوج اخراجات کم کرے؛ نواز شریف کی یہ کوشش اقتدار سے بے دخلی کی بڑی وجہ بنی'

'فوج اخراجات کم کرے؛ نواز شریف کی یہ کوشش اقتدار سے بے دخلی کی بڑی وجہ بنی'
سوال کیا جا رہا ہے کہ فوجی طبقہ کس حد تک ملک کا معاشی بوجھ بانٹنے کے لئے تیار ہے، یہی سوال نواز شریف نے 2013 سے 2018 والے دور حکومت میں اٹھایا تھا۔ نواز شریف حکومت نے کوشش کی تھی کہ فوج ملک کا معاشی بوجھ شیئر کرے۔ ملٹری اخراجات میں کمی لائی جائے اور فوج بھی یہ بوجھ برداشت کرے۔ نواز شریف نے مطالبہ کیا کہ فوج اپنے بجٹ میں رہ کر اخراجات کرے اور ضمنی گرانٹس حکومت سے نہ مانگے۔ اس مطالبے پر فوج سے ان کے تعلقات خراب ہوئے اور اس کی انہیں قیمت بھی ادا کرنی پڑی۔ ان کی اقتدار سے بے دخلی میں اس مطالبے نے بھی کردار ادا کیا۔ 2013 سے 2016 تک اس بجٹ میں بتدریج کمی لائی بھی گئی مگر 2017 کے بعد سے فوج کے بجٹ میں واضح اضافہ ہونا شروع ہوا جو 2021 تک عمران خان کے آرمی کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رہنے تک جاری رہا۔ یہ کہنا ہے معاشی تجزیہ کار خرم حسین کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ منی بجٹ میں ابھی تک پٹرول اور ڈیزل پہ جی ایس ٹی نہیں لگایا گیا۔ رپورٹس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ پٹرول کی قیمت میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 30 سے 50 روپے کا اضافہ کیا جائے گا۔ کھانے پینے کی اشیا پر شرح مہنگائی تو پہلے ہی 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے، پٹرول ڈیزل کی قیمت بڑھنے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ لگژری اشیا میں سب سے زیادہ ٹیکس موبائل فون پر لگا ہے۔ 500 ڈالر سے مہنگے فون پر 25 فیصد جی ایس ٹی دینا ہوگا۔ امیر طبقے کو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا مگر غریب آدمی کے لئے موبائل مہنگا ہونا ایک مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل ہو جانا پہلا مرحلہ ہے۔ اس کے بعد سعودی عرب اور دبئی سے پیسے ملک میں لانے ہوں گے۔ یہ پیسے آ جائیں اور ڈالر تھوڑا نیچے آ جائے تو وقتی طور پر کچھ نہ کچھ استحکام حاصل ہو جائے گا لیکن یہ عارضی اور وقتی استحکام ہو گا۔ موڈیز کی رپورٹ کے مطابق جون 2024 تک پاکستان کے حالات ایسے ہی رہیں گے بشرطیکہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتا رہے۔ ساری سیاسی جماعتیں پرائیویٹائزیشن پہ متفق ہیں مگر جب وہ حکومت میں آتے ہیں تو انہیں نجکاری کرنے نہیں دی جاتی۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو یہ نہیں کرنے دیتیں۔

ماہر قانون بیرسٹر اویس بابر نے کہا کہ قانون ہے کہ عبوری ضمانت لینے کے لئے آپ کو عدالت کے سامنے پیش ہونا ہوتا ہے مگر عمران خان 11 مرتبہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ عام طور پر اتنا موقع کسی بھی عام ملزم کو نہیں دیا جاتا۔ پی ٹی آئی کو جس طرح ماضی میں لچک دکھائی جاتی رہی اس کی بنیاد پر وہ ابھی تک رعایتیں مانگ رہے ہیں۔ بابر اعوان آج بھی عدالت میں ایسے دلائل دے رہے تھے کہ عمران خان لاڈلہ ہے اور اس کے ساتھ سخت رویہ نہ روا رکھا جائے۔ عدالت نے قانون کے مطابق ہدایت جاری کی ہے اور اگر آج لاہور ہائی کورٹ میں عمران خان پیش نہیں ہوتے تو ان کی گرفتاری کے امکان بہت بڑھ جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ دو اداروں کی گریس اس میں ہے کہ وہ نظر نہ آئیں؛ عدلیہ اور فوج۔ جب یہ نظر آنے لگ جائیں تو ان کی مقبولیت تو بڑھ جاتی ہے مگر گریس کم ہو جاتی ہے۔ عمران خان کی جیل بھرو تحریک اصل میں تو گرفتاری سے فرار ہے۔ عمران خان ایک منٹ نہیں گزار سکتے جیل میں۔ مجھے افسوس ہوتا ہے اپنے ملک کے نوجوانوں کو دیکھ کر کہ وہ کیسے آدمی کے پیچھے پاگل ہو رہے ہیں۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ عام طور پر عدالتیں کمزور کو رعایت دیتی ہیں، طاقتور کو نہیں مگر یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ عمران خان کو تمام مقدمات میں حفاظتی ضمانتیں مل رہی ہیں۔ 70 سال کی عمر میں انہوں نے محض 7 دن جیل کاٹی ہے اور اس میں بھی وہ روز دہائیاں دیتے تھے کہ مجھے یہاں سے نکالیں۔ یہ چے گویرا ہیں پاکستان کے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی نے بتایا کہ موڈیز نے یہ بھی بتایا ہے کہ مہنگائی کی شرح اسی سہ ماہی میں 33 فیصد تک چلی جائے گی۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔