لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی جلد گرفتاری کا امکان، صحافی کا انکشاف

لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی جلد گرفتاری کا امکان، صحافی کا انکشاف
صحافی اسد علی طور نے دعویٰ کیا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی جلد گرفتاری کا امکان ہے۔

صحافی  اسد علی  طور نے اپنے یوٹیوب چینل پر وی-لاگ میں انکشاف کیا ہے کہ عمران خان کے قریبی سابق عسکری افسر لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید جلد گرفتار ہونے والے ہیں۔ان پر کرپشن، ملک میں دہشتگردی کے ، ملکی سیاست میں مداخلت کےسنگین الزامات ہیں۔ اس کے علاوہ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے فوج میں بھی بغاوت کروانےکی کوشش کی۔

اس بارے میں کچھ واضح طور پر کہا نہیں جاسکتا کہ ان کا باقاعدہ کورٹ مارشل ہو گا یا ان کو کسی سویلین اتھارٹی کے ذریعے گرفتار کیا جائے گا تاہم ان کا گرفتار ہونا قریب ہے۔ امکان ہے کہ کسی وقت بھی  لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو گرفتار کر لیا جائے گا۔  وہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔ کور کمانڈر پشاور  اور کور کمانڈر بہاولپور بھی رہ چکے ہیں۔

ملک کی سیاسی و معاشی تباہی اور امن و امان کے بحران میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ لیکن تمام تر الزامات کے باوجود، یہ بات قابل غور ہے کہ فیض حمید یہ سب کچھ اکیلے  نہیں کر رہے تھے۔ ایسا ممکن نہیں کہ ایک لیفٹیننٹ جنرل پاکستان فوج میں اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر  اپنی پالیسی  بنا کر اس کو چلائے۔ واضح طور پر انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے 'باجوہ ڈاکٹرائن'  کا لوگو کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کیا۔

2018 کے الیکشن میں دھاندلی، جس طرح ملک میں سب الٹ پلٹ کیا گیا اس سب میں فیض حمید سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے احکامات بجا لا رہے تھے۔  آخری دو سے تین سال میں انہوں نے اگلا آرمی چیف بننے کی خواہشات کی تکمیل کے لئے اپنے 'رول' سے کافی باہر نکل چکے تھے۔ ان کو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔

میری رائے میں صرف لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید  کے خلاف ہی نہیں بلکہ جنرل (ر)  قمر جاوید باجوہ کیخلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ یہ جو پاکستان مسلم لیگ جنرل باجوہ کا نام نہیں لے رہی یہ بہت شرمناک بات ہے۔ جب وہ حاضر سروس تھے تو میاں نواز شریف کی جانب سے ان کا نام لیا گیا لیکن اب جب عمران خان کو نکال دیا گیا تو آپ ان کا نام نہیں لے رہے۔ تو  ایسا لگتا ہے کہ عمراں خان ٹھیک کہہ رہے تھے کہ ان کو جنرل باجوہ نے سازش کر کے نکالا۔ کیونکہ اگر عمران خان کو نکالنے اور  مسلم لیگ ن اور انکی اتحادی حکومت کو لانے میں ان کا کردار نہ ہوتا تو  کیوں مریم نواز جلسوں میں ان کا نام لیتی۔ اگر آپ بغیر ڈیل کے آئے ہیں اور اپنے ووٹ کی طاقت پر اقتدار میں آئے ہیں تو  جنرل (ر)  قمر جاوید باجوہ کا نام لیں انہوں نے آپ لوگوکے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید  کے خلاف چاج شیٹ بڑی خوفناک ہے۔ سب سے پہلے اگر کرپشن الزامات کی بات کی جائے تو جیسا کہ صحافی انصار عباسی نے لکھا کہ کس طرح سے  فیض حمید   نے اسلام آباد میں ایف الیون میں چھاپہ مار  کے ائر پورٹ کے قریب واقع ایک نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے مالکان کو اٹھایا ان کو اغوا کیا ۔ آئی ایس آئی اور رینجرز کے اہلکاروں کا استعمال کیا۔ اس وقت فیض حمید ڈی جی سی، میجر جنرل تھے۔ مالکان کو اغوا کروایااور ان کی اس جائیداد، ہاوسنگ سوسائٹی، کو  مبینہ طور پر اپنے بھائی نجف حمید اور ایک معصومہ نامی خاتون کے نام پر ٹرانسفر  کروانے کی کوشش کی۔ جب تین چار دن کے ٹارچر کے بعد  وہ نہ مانے تو ان پر دہشتگردی کی ایف آئی آر درج کروا دی  اور یہ تمام کارروائی اسلام آباد میں ہوئی پاکستان کی سی دوردراز علاقے میں نہیں ہوئی۔ اس وقت چوہدری نثار وزیر داخلہ تھے۔ نہ وہ کچھ کر سکے نہ ہی یہاں کچھ ہو سکا۔ ان پر مقدمہ درج ہوا کارروائی ہوئی لیکن وہ تمام عدالتوں سے بری ہو گئے اور اب سپریم کورٹ کے دروازے پر کھڑے ہیں لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے ابھی تک ان کی اپیل کی سماعت نہیں کی گئی لیکن اس کی وجہ معزز چیف جسٹس عمر عطا بندیال ہی بتا سکتے ہیں کہ جس کیس میں فیض حمیدبراہِ راست ملوث ہیں اس اپیل کو ابھی تک  سماعت کے لئے کیوں نہیں مقرر کر رہے۔

اس کے علاوہ وہ اسلام آباد میں 'منی ایکسچینج ڈیلرز' کو اغوا کرواتے تھے اور ان سے تاوان وصول کرتے تھے۔  انہوں نے ایک نیٹ ورک سندھ میں بھی بنا رکھا تھا جو مختلف سیاستدانوں کے 'فرنٹ مین' یا بیوروکریٹس کو اٹھانے کا کام کرتا تھا۔ وہ اشخاص غائب ہوتے تھے اور جب ایک یا ڈیڑھ ہفتے کے بعد واپس آتے تھے تو  مکمل خاموشی اختیار کر لیتے تھے۔ ان میں سے آج تک کسی نے بھی کوئی بیان نہیں دیا کہ انہیں کون اور کہاں لے کر گیا تھا۔ وہ بھی مبینہ طور پر وہ لوگ تھے جو اِدھر اُدھر سے پیسے بناتے تھے اور اس وقت کی آئی ایس آئی کے اہلکار ان پر نظر رکھتے تھے اور  جب وہ شخص ایک اچھی رقم جیسے ایک ارب روپے بنا لیتا تھا تو چھاپہ مارتے تھے  ان کو تمام فائل، ویڈیوز وغیرہ  دکھائی جاتی تھیں اور کہا جاتا تھا کہ جتنا پیسہ بین الاقوامی اکاونٹس میں رکھے ہوئے ہیں، جو جائیدادیں بنائی ہوئی ہیں وہ ہمارے نام ٹرانسفر کرو۔ یہ تمام رقم  وغیرہ قومی خزانے میں نہیں بلکہ اپنی جیبوں میں ڈالی جاتی تھیں۔ انہوں نے بڑے منظم اور    سافسٹیکیٹڈ طریقے سے یہ سب چل رہا تھا۔ اسی طرح بحریہ ٹاون کراچی کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ وہاں بھی سافسٹیکیٹڈ نیٹ ورک کام کر رہا تھا، جو شاید اب بھی ہو۔ وہاں جو اشخاص بہت زیادہ پلاٹس خرید رہے ہوتے تھے ان پر نظر رکھی جاتی تھی۔ ملک ریاض بھی انہی کا تشکیل کردہ ہے اور کچھ اور بھی پراپرٹی ڈیلرز اس میں ملوث تھے، وہ بتاتے تھے کہ فلاں شخص کے یہاں اتنے پلاٹس ہیں۔جب ان کے اثاثے چیک کئے جاتے اور ان کے آمدن کے ذرائع کا پتا لگا لیا جاتا کہ 'بلیک منی'کما رہا یا وائٹ ۔ جب کسی رات کوئی جارہا ہوتا تو اس کو اٹھا لیا جاتا۔ آئی ایس آئی کے کسی سیف ہاوس میں لے جایا جاتا۔ ان کے ساتھ مارپیٹ تشدد کیا جاتا۔ پوچھا جاتا کہ تم نے کہاں سے بنایا؟ فائلیں کہاں سے آئیں؟ پھر سب کچھ اس سے نکلوا کر اپنی جیبوں میں ڈال کر بھگا دیا جاتا۔ جس اس شخص کے پاس ہے ہی کالا دھن تھا تو وہ باہر جا کر کسی کو کیا کہتا کہ مجھے آئی ایس آئی والے یا رینجرز والے اٹھا کر لے گئے تھے۔ اصولی طور پر یہ کالا دھن قومی خزانے میں جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں تھا یہ سب ان کی جیبوں میں جارہا تھا۔

خیبرپختونخوا میں تاجر حضرات اغوا ہوتے تھے ۔ کہنے کو تو پاکستان تحریک طالبان کے لوگ ان کو اٹھا کر لے جاتے تھے۔ اس میں کچھ علما، پشاور میں کچھ آئی ایس آئی کے اہلکار  تھے جو ان تاجران کے اہلخانہ کو رابطہ کرتے تھے کہ ہم  ٹی ٹی پی سے مذاکرات کر کے آپ کا بندہ واپس لا کر دیتے ہیں۔ بالفرض اگر ٹی ٹی پی 10 کروڑ تاوان مانگ رہی تھی تو یہ لوگ اس کو 6 کروڑ کروا دیتے تھے۔ ایک بڑے مشہور اہلکار جو اس وقت کے آئی ایس آئی کے افسر تھے جو آج بھی اسلام آباد کے بڑے ہوٹلوں میں اینکرز اور ماڈلز کے ساتھ بیٹھے نظر آتے ہیں۔ وہ بھی ان ڈیلز میں شامل ہوتے تھے۔ ڈیل میں تاجروں کی فیملیز سے 6 کروڑ لیا جاتا تھا اور ٹی ٹی پی کو 4 کروڑ دیا جاتا تھا باقی دو کروڑ اپنی جیب میں اور وہ شخص واپس اپنے گھر پہنچ جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ فیض حمید کی ٹی ٹی پی سے اچھی علیک سلیک تھی۔ جونہی جنرل عاصم منیر آرمی چیف بنے ٹی ٹی پی نے سیزفائر ختم کر دیا ساتھ ہی مذاکرات بھی ختم ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ مبینہ طور پر فیض حمید ٹی ٹی پی میں بڑی قابلِ احترام شخصیت تھے کیونکہ ان کی وجہ سے بہت پیسہ اِدھر اُدھر ہوا، ایک دوسرے کو فائدہ پہنچایا گیا۔

انہوں نے چکوال میں اپنے گاوں میں ملک ریاض اور عارف حمید سے اپنا فارم ہاوس بنوایا۔ اس پر بیش بہا پیسہ لگا۔ مبینہ طور پر وہاں سینکڑوں، ہزاروں ایکڑ زمینیں خریدی گئیں۔ خریدی گئیں یا لوگوں کو اٹھا کر اپنے نام ٹرانسفر کروائی گئیں۔ یہ سب کچھ ان کے خلاف الزامات میں شامل ہے۔ وہ بہت اربوں پتی ہیں اور اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

دوسرا الزام ان پر سیکیورٹی معاملات کا ہے۔ پاکستان میں حالیہ دہشتگردی کے محرکات میں سے سب سے بڑے محرک  سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید  تھے جن کی کور کمانڈر پشاور کی حیثیت سے یہ پالیسی تھی کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے ہیں۔ عمران خان بھی کہتے تھے کہ ٹی ٹی پی کو واپس لا کر وہیں پت سیٹل کریں گے۔ یہ تمام فیض حمید   کی پالیسی کے تحت تھا۔ چونکہ فیض حمید   کے ٹی ٹی پی سے پرانے تعلقات تھے تو وہ اسی بنیاد پر ٹی ٹی پی کو ساتھ لے کر چل رہے تھے اور ان کو اوزار کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ وہ آرمی چیف نہ بن سکے اور جنرل عاصم منیر جونہی آرمی چیف بنے، ٹی ٹی پی نے سیز فائر ختم کر دیا اور پاکستان میں ایک بار پھر حملوں کا آغاز کر دیا۔

کہا جارہا ہے کہ یہ حملے 2013 کی طرح ہیں۔ 2013 میں ٹی ٹی پی نے اے این پی،  ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو ٹارگٹ کیا تھا۔ ان کے امیدواروں کو مارا گیا، ان کے جلسوں میں دھماکے کیے گئے۔ ان کی کارنر میٹنگز کا نشانہ بنایا۔ ان کے کارکنوں کو شہید کیا۔ ان کی انتخابی مہم کو بالکل ہی معذور کر دیا تھا۔ پھر پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں اقتدار میں آسکی اور ملک میں پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل ہوئی۔  اب پھر سے انتخابات سے قبل ان کو ایکٹویٹ کیا گیا۔ اور فیض حمید    کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں ان کا کہیں پر ہاتھ ہے تاکہ اس بار جب انتخابی مہم کا آغاز ہو تو  سوائے پاکستان تحریک انصاف کے اور کوئی سیاسی جماعت انتخابی مہم نہ کر سکے۔ ان کی ریلیوں، جلسوں، کارکنان کو ٹی ٹی پی کا نشانہ بنوایا جائے۔ اور ملک میں ایک بار پھر سے 2013 جیسا ماحول بنایا جائے۔

تیسری چیز، فیض حمید    کی سیاست میں مداخلت ہے۔ جب 201 میں یہ فیصلہ ہوا کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ نام نہاد 'غیر سیاسی' ہو گی۔ تب بھی فیض حمید    کی جانب سے بار بار اس موقف کی خلاف ورزی کی گئی۔ جب انہیں آئی ایس آئی سے ہٹا کر  جب کور کمانڈر کی حیثیت سے پشاوا بھیجا گیا تو وہاں بھی انہوں نے پی ٹی آئی کی حمایت جاری رکھی۔ جب اہلکاروں کو واپس بھیجا گیا یا ان کی پوسٹنگ کہیں اور ہوئی، فیض حمید    بدستور ان سے وہی کام لیتے رہے۔ وہ سیاست میں بھی مداخلت کرتے رہے۔ پی ٹی آئی کو فنڈنگ دلوانا، جج صاحبان کو مینج کرنا ، یہ سب کچھ کرتے رہے۔ اسی لئے پچھلے دنوں کرنل لیاقت،  جو اسلام آباد کی سیکٹر کمانڈر رہے، ان کو ان کی فیملی کے ہمراہ ایئرپورٹ سے اٹھایا گیا جب وہ برطانیہ جارہے تھے۔ آئی ایس آئی کا کرنل تھا اس کے پاس اتنا پیسا کہاں سے آیا کہ اس نے برطانیہ میں اپنی فیملی کو سیٹل کیا ہوا ہے۔ اور دیگر بھی کئی اہلکاروں کو فیض حمید    استعمال کرتے رہے۔ 25 مئی کو جو لانگ مارچ ہوا اس میں بھی فیض حمید    کی بہت حمایت حاصل تھی۔

اس چارج شیٹ میں یہ تمام چیزیں شامل ہیں کہ انہوں نے یہ سب کیا ہے۔

ان کے اوپر ایک اور سنگین الزام ہے کہ انہوں نے فوج کے اندر ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے۔ جیسے وزیراعظم ہاوس سے ایک اہلکار پکڑا گیا جس نے وزیراعظم ہاوس کی تمام ریکارڈنگز کیں۔ وہ بھی فیض حمید    کے ساتھ رابطے میں تھا  جب یہ کور کمانڈر بہاولپور تھے۔ آرمی چیف کی تقرری کے معاملے میں انہوں نے عمران خان کو استعمال کیا اور کہا کہ آپ لانگ مارچ کریں، وہی لانگ مارچ جس میں ان کو گولی لگی۔ وہ لانگ مارچح بھی فیض حمید    کروا رہے تھے تاکہ فوج میں ان حلقوں کو مضبوط کیا جاسکے جو جنرل سید عاصم منیر کو آرمی چیف بننے سے روک سکیں۔  پھر عمران خان کے ذریعے یہ آپشنز بھی دیئے گئے کہ آپ الیکشن تک جنرل باجوہ کو آرمی چیف برقرار رکھیں۔ فیض حمید    نے بھرپور کوشش کی اور ٹارگٹ کیا کہ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بننے سے روکا جاسکے۔ اس کے لئے وہ مختلف لوگوں کے ذریعے فوج میں مہم چلارہے تھے۔ ریٹائرڈ فوجی افسران سے مہم چلوا رہے تھے۔

انہوں نے فوج کے اندر بغاوت کروانے کی کوشش کی اور جو ماحول پیدا کیا  یہ بہت سنگین تھا۔ ابھی جو ریٹائرڈ فوجی افسر امجد شعیب اٹھائے گئے تھے۔ جب ان کلے موبائل کی فرانزک جانچ ہوئی کو ان کے فیض حمید    سے رابطے کے شواہد ملے۔ یہ ایک پورا نیٹ ورک تھا جو یہ سب کچھ کر رہاتھا۔ یہ اس منظم طریقے سے فوج میں ایک نیٹ ورک چلا رہے تھے۔ کور کمانڈر بہاولپور رہتے ہوئے بھی مداخلت کرہے تھے۔ اپنی بیٹی کی شادی کا کہہ کر راولپنڈی آئے اور وہاں سے اسلام آباد گئے اور سیاسی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا، جب آرمی ہائی کمانڈ کو علم ہوا تو انہیں واپسی کا حکم دیا گیا۔

جنرل قمر باجوہ نے تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی کیونکہ جس طرح دیگر اشخاص کی فائلیں، آڈیوز اور ویڈیوز فیض حمید   کے پاس تھیں اسی طرح جنرل باجوہ کی بھی چیزیں ان کے پاس موجود تھیں۔ یہ دونوں مل کر کھا رہے تھے۔ یہ تمام چیزیں فوج کے علم میں ہیں اور ان کے کچے چٹھے کا تمام ریکارڈ ان کے پاس موجود ہے تاہم ابھی ان کی گرفتاری کے حتمی احکامات کب جاری ہوں گے یہ آئندہ دنوں میں متوقع ہے۔