عمران خان نے رضامندی کے باوجود انتخابی مذاکرات کو بشریٰ بی بی کے حکم پر ناکام بنوایا: فردوس عاشق اعوان

عمران خان نے رضامندی کے باوجود انتخابی مذاکرات کو بشریٰ بی بی کے حکم پر ناکام بنوایا: فردوس عاشق اعوان
سابق وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے خود رضامندی دینے کے باوجود انتخابی مذاکرات کو ناکام بنوایا کیونکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی المعروف پنکی پیرنی کی جانب سے اس کا حکم نہیں ہوا۔ پنکی پیرنی انہیں اس لیول تک لے گئیں کہ ان کو ہپناٹائز کر کے میگناٹائز کر دے اور بعد میں میسمرائز کر کے وزیراعظم بنوا کر جو مرضی کروا لیں۔

سابق وزیر فردوس عاشق اعوان نے سینئر اینکر پرسن طلعت حسین سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے انکشافات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی تلخ حقیقت ہے کہ انتخابات کے لیے مذاکرات کی ناکامی کی اصل وجہ خود عمران خان ہیں۔

فردوس عاشق کا کہنا تھا کہ ملک میں جو حالیہ بحران چل رہا ہے، جلاو گھیراو، 'رولا رپا' سب اسی لیے چل رہا ہے کہ عمران خان کہتے ہیں مجھے انتخابات چاہئیں۔ جب الیکشن کے لیے کمیٹی بن گئی اور  حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہو گیا۔ مذاکرات میں 30 جون کے بعد اسمبلی تحلیل ہونے اور اس کے بعد ستمبر میں انتخابات کروانے پر اتفاق ہو گیا۔ خان صاحب کی جانب سے بھی اس پر اتفاق ہو گیا لیکن 'مرشد کا امر' نہیں تھا لہٰذا سب کچھ ریورس کر دیا گیا۔ مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار ہوئے جو ملکی بحران کی صورت اختیار کر گئے۔ جس میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان برملا 9 مئی کے واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کررہے تھے اور انہوں نے کہا کہ میرا ان واقعات سے کیا لینا دینا ہے۔ میں تو جیل میں تھا۔ سب پارٹی قیادت اور کارکنان نے کیا۔

لیڈر کحی ایسا نہیں کرتا وہ تو ہمیشہ لیڈ کرتا ہے۔ انہوں نے دیکھا کے معاملات ان کے مخالفت میں چل نکلے ہیں۔ جو کچھ بھی ہوا اس میں معصوم کارکنان ان کی خواہش کا ایندھن بن کر ان کی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ان کی ذمہ داری اٹھانے کی بجائے، ان کے کیسز لڑنے اور سپورٹ کرنے کی بجائے انہوں نے آسان فارمولا اپناتے ہوئے انہیں "ڈِس اون" کر دیا۔ اور کہا کہ ان کا عمل ہے ان سے پوچھیں۔

اسی طرح ہر وہ چیز جو ان کو مناسب نہیں لگتی۔ ان کو سوٹ نہیں کرتی۔ جس کا انہیں لگتا تھا کہ حسبِ منشا نتائج نہیں مل پائے کا تو وہ ہمیشہ ہی کسی نہ کسی کو "قربانی کا بکرا" بنا لیتے تھے۔

سوال کیا گیا کہ بشریٰ بی بی پر مکمل فوکس ہونے کے باوجود بھی انہیں قربانی کی بکری نہیں بنایا گیا، ان کا عمران خان پر کتنا اثر ہے؟ جس کے جواب میں فردوس عاشق نے کہا کہ جب کارکنان نے عمران خان کے لیے"مرشد" کا نعرہ لگایا تو انہوں نے کہا کہ میں کسی کا مرشد نہیں کیونکہ میری "مرشد" تو بشریٰ بی بی ہیں۔ جب کوئی کسی کے ہاتھ پر بٰیعت کر لیتا ہے اور اس کو مرشد مان لیتا ہے تو مرشد کا حکم "امر" کہلاتا ہے۔ پھر یہ آپ کا انتخاب نہیں ہوتا کہ آپ مانیں گے یا نہیں۔ وہ لازم و ملزوم ہو جاتا ہے۔ جتنے بھی کام خان صاحب نے جیسے بھی کیے چاہے وہ پبلک سروس ڈیلیوری تھی، گورننس کے مسائل تھے، ترقیوں یا تبادلوں کے مسائل تھے، جہاں جہاں بھی خان صاحب نے 'چین آف کمانڈ' کی خلاف ورزی کی اس کے پیچھے مرشد کا 'امر' تھا۔ جس کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ جب عمران خان  اس کو چیلنج نہیں کرسکے اور آنکھیں بند کر کے تقلید کرتے رہے تو اس کا نقصان پاکستان کو ہوا۔

طلعت حسین نے سوال کیا کہ مرشد کے پاس ایسا کونسا موکل ہے جو انہیں سب بتاتا ہے؟ اس پر فردوس عاشق نے کہا کہ میں ایک میٹنگ میں تھی جس میں جہانگیر ترین اور عون چوہدری موجود تھے تو انہوں نے بھی یہی سوال کیا کہ خان صاحب نے ایسا کیوں کیا؟ خان صاحب نے آنکھیں بند کر کے ہر اس بات کی ذمہ داری لی جو مرشد کا امر تھا۔ تو میں نے انہیں بتایا کہ خان صاحب خود کلپرٹ ہیں۔ کیونکہ جو شخص ایسی صورتحال میں نکاح کر رہا جس پر سوال لگ گیا، ان کی سہولتکاری کی گئی، سماجی اور ثقافتی اقدار کو پیچھے چھوڑ دیا تو پھر اس کا بھگتان تو پاکستان اور عوام ادا کر رہے ہیں۔

جن شخصیات کے بارے میں بات ہو رہی ہے ان کے بارے میں تو سائنس بھی فیل ہو جائے کہ پہلے آپ کسی کو ہپناٹائز کر لیں، پھر آپ اس کو میگناٹائز کرلیں، اور پھر اس کو میسمرائز کر دیں۔ اس کو ایسے کنٹرول کریں کہ وہ ملک کا وزیراعظم ہو  یا جس بھی عہدے پر ہو وہصرف اور صرف آپکے حکم کا پابند ہو۔ باقی تمام فورسز، ادارے، کابینہ، پارٹی، قیادت  سب کی قدر ختم ہو جائے۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ ہپناٹائز، میگناٹائز، میسمرائز، ان تمام الفاظ کا استعمال استعارے کے طور پر نہیں کیا بلکہ حقیقی معنوں میں ایسا ہی ہے۔ جو عمران خان ہمیں نظر آتے ہیں وہ کسی اور کے زیراثر ہیں۔ 'عمران خان، بشریٰ بی بی کی زبان بولتے ہیں'۔ یہ تلخ حقیقت ہے۔

کبھی آپ نے دیکھا کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی ملزم عدالت میں پیش ہوا ہو اور سفید چادروں کے گھیرے میں عدالت آئے؟ اس کے پیچھے بھی ایک "مِتھ' ہے۔ کوئی ایسا عمل نہیں جس کے پیچھے امر نہیں۔ جب میں نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی تب عمران خان نتھیا گلی میں تھے۔ تب یہ امر تھا کہ پہاڑوں کے پاس رہنا ہے۔ کبھی یہ امر ہوتا ہے کہ پانی کے پاس رہنا ہے۔ جہاں کا امر ہوتا قوم کے لیڈر وہاں رُخ کر لیتے ہیں۔

انتخابات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس قوم کو بحران سے بچانے کے لیے انتخابات ہی واحد راستہ ہے۔ الیکشن کے بغیر چارہ نہیں ہے لیکن اس س پہلے بہت کچھ ہونا باقی ہے۔  9 مئی کے واقعات نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ جس نے دنیا میں پاکستان کے وقار اور شناخت کو  مجروح کیا۔ جب تک اس کے مرکزی کرداروں کو کیفر کردار تک نہ پہنچا دیا جائے تب تک ملک میں قانون کی بالادستی قائم نہیں کی جاسکتی۔ اور انتخابات سے پہلے ضروری ہے کہ سب جماعتوں کوآئینی طور پر 'لیول پلیئنگ گراونڈ' دیا جائے تاکہ وہ اپنا آئینی کردار ادا کر سکیں۔ لیکن میں پی ٹی آئی کو مستقبل کی ایم کیو ایم بنتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔ جیسے وہاں پولرائزیشن ہوئی تھی اور پارٹی میں گروپس بنے تھَ ویسے ہی پی ٹی آئی میں ہو گا۔ مائنس عمران خان کے تمام پیروکار بشمول شاہ محمود قریشی، تمام اپنا اپنا ٹھیلا لگا کر اپنی سیاست کریں گے۔ مستقبل میں سیاسی افق پر عمران خان کہیں بھی نظر نہیں آرہے۔

فردوس عاشق اعوان نے 'جہانگیر ترین' کا نام لیے بغیر کہا کہ میں پی ٹی آئی میں کبھی بھی جانا نہیں چاہتی تھی لیکن تب بھی مجھے زبردستی پارٹی میں شمولیت اختیار کروائی گئی اور جب بھی مجھے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تھا تو میں انہیں یہی کہتی تھی کہ "ہن ٹھنڈ پے گئی جے"۔ لیکن چونکہ اب وہ بذات خود پی ٹی آئی کے مائنڈ سیٹ کا نشانہ بنے تو  بدقسمتی سے میں انفارمیشن منسٹر تھی تو مجھے براہ راست خان صاحب کی طرف سے کہا گیا کہ میں ان کے خلاف 'فرنٹ' پر آ کر لیڈ کروں اور ان کو چور، ڈاکو سب کچھ کہوں۔

ایک طرف پارٹی بیانیہ اور لیڈر کی خواہشات اور دوسری جانب میرا اور ترین فیملی کا تعلق، میرے لیے بہت مشکل ہو گیا تھا۔ میرے انکار کے بعد یہ کام شہباز گل کو سونپا گیا۔ اور ان کے خلاف سب سے پہلی ٹویٹ بھی شہباز گل نے بھی  کی تھی۔

دوسرا مرحلہ تب آیا جب میں پنجاب میں تھی۔ جب بجٹ پاس ہونا تھا۔ اس سے پہلے عثمان بزدار کے خلاف پنجاب کے ایم پیز نے محاذ آرائی کی کیونکہ وہ ان کے کام نہیں کرہے تھے اور باقاعدہ ترقیاتی فنڈز نہیں دے  رہے تھے تو  ہم بجٹ میں ان کے خلاف ووٹ دیں گے۔ پارٹی کی سطح پر مجھ پر پریشر تھا ان کے خلاف جاوں۔ تب جہانگیر ترین کے خلاف محاذ آرائی شروع ہو چکی تھی۔ پی ٹی آئی پنجاب میں 12 الیکشن ہاری تھی جبکہ میرے حلقے کا واحد الیکشن تھا جو میں نے اپنا ایم پی اے جتوایا تھا۔ ن لیگ کے مورچے سیالکوٹ میں کامیابی حاصل کی تھی اور بجائے اس کے کہ میری اس پر حوصلہ افزائی کی جاتی  لیکن ایسا نہیں ہوا۔

جو بھی پی ٹی آئی کے منحرف اراکین ہیں وہ پارٹی میں واپس نہیں جائیں گے لیکن ان پارٹیز میں بھی نہیں جائیں گے جن کے خلاف وہ انتخابات میں صف آرا رہے۔ مستقبل میں جہانگیر ترین کی سیاسی پارٹی ہو گی، کوئی گروپ نہیں باقاعدہ سیاسی پارٹی ہو گی جس کو وہ خود لیڈ کریں گے۔ میری رائے میں انہیں ایسا کرنا بھی چاہیے۔