ہندوستان سے تجارت بند ہونے کے بعد خشک کجھوروں کا کاروبار ستر فیصد متاثر ہوا

ہندوستان سے تجارت بند ہونے کے بعد خشک کجھوروں کا کاروبار ستر فیصد متاثر ہوا
خشک کجھوروں کے کاشت سے وابستہ ستر فیصد کسانوں کو خسارے کا سامنا ہے

 اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے چیئرمین سینیٹر مرزا محمد آفریدی نے کہا ہے کہ یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ ا سمگلنگ کی روک تھا م کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے باعث اسمگلنگ میں کمی آئی ہے اور مقامی صنعت کو سہارا ملا ہے جس سے ملک میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا اور کاروباری حالات مزید بہتر ہونگے۔

سینیٹر مرزا آفریدی نے کہا کہ وزیراعظم کا بھی یہی ویژن ہے کہ مقامی صنعت کو ترقی دی جائے اور معیشت کو مستحکم کیا جائے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین نے ان خیالات کا اظہار پارلیمنٹ ہاؤس میں کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ مقامی سطح پر بیمار صنعتی یونٹس کو سہولیات کی فراہمی اور ان صنعتی یونٹس میں جان ڈالنے کی ضرورت ہے۔

کمیٹی کو بلوچستان میں ٹماٹر اور پیاز کی بہتر پیداوار کے باوجود مناسب نرخ نہ ملنے کی وجہ سے کسانوں کو درپیش مسائل کجھور کی برآمد کیلئے نئی منڈیاں تلاش کرنے ای کامرس ، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپس و دیگر آئی ٹی کے آلات میں مبینہ ٹیکس چوری اور انڈر انوائسنگ کے معاملات پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ ہمارا بنیادی مقصد مقامی صنعت اور مقامی پیداوار کا تحفظ ہے۔ سینیٹر میر کبیر شاہی نے بلوچستان میں سیب، پیاز، ٹماٹر اور انگور کے مناسب نرخ نہ لگنے کے بارے میں بتایا کہ پڑوسی ممالک سے ان اجناس کی مقامی مارکیٹوں میں سپلائی سے بلوچستان کے کسانوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزارت تجارت اس مسئلے کا حل نکالے۔ اراکین کمیٹی نے بھی اس بات پر زور دیا کہ سب سے پہلے مقامی پیداوار کو استعمال میں لایا جائے اور کسانوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ سیکرٹری کامرس نے کمیٹی کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وزارت خوراک کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا حل نکالیں گے اور اس پر کمیٹی کو آگاہ کیا جائے گا۔

سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی نے کہا کہ جب مقامی سطح پر پیداوار ہو تو باہر سے یہ اجناس نہ منگوائی جائیں۔ سینیٹر دلاور خان نے افغان ٹرا نزٹ ٹریڈ کے حوالے سے کہا کہ ٹریکرز کی کمی کی وجہ سے ٹرانزٹ پوانٹس پر دباؤ بڑھ گیا ہے لہذا اس کا مناسب حل نکالا جائے۔ سینیٹر مرزا آفریدی نے کہا کہ تجارت ملک کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے موثر حکمت عملی اپنانے کا وقت آ گیا ہے۔

ای کامرس کے حوالے سے وزیراعظم کے مشیر عبدالرزاق داؤد نے بتایا کہ ایس ایم ایز کے ذریعے آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کیلئے اسٹیٹ بینک سے رابطہ کیا ہے اور آئی ٹی سے متعلق ایس ایم ایز کیلئے بھی مشاورت جاری ہے جس پر جلد ہی کوئی مثبت پیش رفت نظر آئے گی۔ سیکرٹری کامرس نے بتایا کہ ای کامرس پالیسی آ گئی ہے اور اگلے اجلاس میں کمیٹی کو ای کامرس سے متعلق پورے فریم ورک سے آگاہ کر دیا جائے گا۔ سینیٹر مرزا محمد آفریدی نے اس اقدام کو سراہا انہوں نے تاہم اس بات پر زور دیا کہ بیمار صنعتی یونٹس کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ایمپورٹ کے ساتھ ساتھ مقامی ضرورت کو بھی دیکھا جا سکے۔

سینیٹر دلاور خان نے کمیٹی کو بتایا کہ ٹی ڈیپ کا ایک بھی اجلاس اب تک نہ ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ڈیپ سے مختلف تفصیلات مانگی گئی تھیں جو کہ آج تک بھی فراہم نہیں کی گئی۔سینیٹر مرزا آفریدی نے کہا کہ ٹی ڈیپ ایک انتہائی اہم ادارہ ہے اور ادارے کو چاہئے کہ بورڈ کے اجلاس تواتر کے ساتھ منعقد کئے جائیں تا کہ معاملات میں پیش رفت ہو اور پاکستان کے عوام کو معلومات کی رسائی ہو۔سینیٹر مرزا آفریدی نے ٹریڈ اور کمرشل اتاشیوں سے متعلق بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ پاکستان میں ٹوبیکو کی بہترین کوالٹی پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی دنیا کو پاکستانی پراڈکس کے بارے میں بتایا جائے اور ٹریڈ اور کمرشل اتاشی اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔
کمیٹی نے مردان، چارسدہ اور سوابی میں تباکو کے کاشکاروں کو سہولیات فراہم کرنے اور ان کے استعداد کار کو بڑھانے پر بھی زور دیا۔ کمیٹی کو بتایاکہ سوابی یونیورسٹی کے ساتھ اشتراک کے ذریعے ایک منصوبے پر پیش رفت ہوئی ہے جس پر سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیں کیونکہ پاکستان کی بہترین ٹوبیکو ان علاقوں میں پیدا ہوتی ہے اور قومی خزانے کو اربوں روپے کا ٹیکس بھی ملتا ہے۔

کجھور کی ایکسپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا کہ پاکستان کی خشک کجھور کا 70فیصد حصہ بھارت جاتا تھا تاہم بھارت کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں منقطع ہونے کی وجہ سے کجھور کی فصل کو نقصان پہنچا ہے تاہم حکام نے بتایا کہ متبادل مارکیٹ کی تلاش کیلئے کوششیں جاری ہیں اور مختلف ممالک کے ساتھ رابطہ کیا گیا ہے۔ سینیٹر مرزا آفریدی نے کہا کہ لوگوں کو نقصان سے بچایا جائے اور متبادل مارکیٹ کی تلاش کیلئے کوششیں مزید تیز کی جائیں۔ سینیٹر رانا محمود الحسن نے تجویز دی کہ پاکستان میں چھوٹی شوگر ملز لگانے کی پالیسی متعارف کرائی جائے شوگر کی چھوٹی صنعتوں کے لگانے سے مارکیٹ میں مقابلے کا رجحان بڑھے گا۔ سیکرٹری تجارت نے بتایا کہ شوگر کی چھوٹی صنعتیں لگانے کا معاملہ وزارت صنعت و پیداوار میں زیر غور ہے۔ کمیٹی کو پورٹ قاسم پر کھڑے کنٹینرز کی کلیئرنس کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا جبکہ آئی ٹی آلات کی آڑ میں ہونے والی ٹیکس چوری، انڈر انوائسنگ اور منی لانڈرنگ پر بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔