'کیا ثبوت ہیں کہ جسٹس عائشہ ملک کسی گیم پلان کا حصہ ہیں؟'

'کیا ثبوت ہیں کہ جسٹس عائشہ ملک کسی گیم پلان کا حصہ ہیں؟'
ایڈووکیٹ ندا عثمان چودھری نے کہا ہے کہ اس بات کے کیا ثبوت ہیں کہ جسٹس عائشہ ملک کسی گیم پلان کا حصہ ہیں۔ ایسی باتیں اس وقت ہی کی جاتی ہیں جب لوگوں کے پاس دلائل ختم ہو جاتے ہیں۔

نیا دور ٹی وی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ضروری تھا کہ عدالت عظمیٰ میں خواتین کے نقطہ نظر کی نمائندگی ہو۔ جسٹس عائشہ ملک کی بطور جج سپریم کورٹ میں تعیناتی سے یہ تو نہیں ہوگا کہ چیزیں ایک دم ہی بدل جائیں گی، مگر یہ ایک شروعات ہے، اس سے ہمارے عدالتی نظام میں بھی بہت بہتری آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ جسٹس عائشہ ملک کے بطور جج سپریم کورٹ تعینات ہونے سے ہماری عدالتی فیصلہ سازی میں معاشرے میں رہنے والے مختلف طبقات کے لوگوں کا نقطہ نظر شامل ہوگا، اس سے معاشرے کی بھی بہتری ہوگی کیونکہ خاتون جج کی حیثیت سے ان کے فیصلوں کا اثر سوسائٹی پر پڑے گا۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ندا عثمان چودھری نے کہا کہ ہم جسٹس عائشہ ملک کی ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے سپورٹ نہیں کر رہے بلکہ اس پر ہمارا ایک دوسرا نقطہ نظر ہے۔ ہمارے سامنے یہ لالی پاپ رکھا گیا تھا کہ وہ لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس بن سکتی تھیں لیکن بطور جج وہاں تو انھیں پانچ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، وہاں وہ اپنی خدمات پیش کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلے تو یہ کہا جاتا تھا کہ کوئی خاتون اس لائق ہی نہیں ہے کہ وہ اس عہدے تک پہنچے۔ اب ایک ایسا موقع آیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی جج بن سکیں۔ ہمارے لئے ان کی لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بننے سے زیادہ اہمیت ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں بطور جج جائیں۔

ایک اور اہم سوال پر اپنی قانونی رائے پیش کرتے ہوئے ندا عثمان چودھری کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں بطور جج جانے کیلئے سینیورٹی کی ضرورت پاکستان کے آئین یا قانون میں درج ہی نہیں ہے، اس وقت یہ بار کے صرف چند معزز ممبران کا مطالبہ ضرور ہے۔ تاہم آئین میں ایسی کوئی شرط نہیں رکھی گئی کہ سینئر ججوں کی ہی نامزدگی کی جائے گی۔ اس لئے یہ کہا جانا کہ جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی کیلئے دیگر ججوں کو بائی پاس کیا جا رہا ہے، میرے نزدیک یہ بالکل غلط ہے۔ کسی جج کا آئینی یا قانونی حق نہیں مارا جا رہا، اگر ایسا ہوتا تو ہم خود کہتے کہ اصولوں سے انحراف کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے واضح کہا کہ سپریم کورٹ کی تعیناتی فریش اپوائنٹمنٹ ہوتی ہے کوئی پرموشن نہیں، اس لئے سینیورٹی کی باتیں معنی نہیں رکھتیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس یہ صوابدید ہے کہ وہ جس جج کو چاہیں اس کی قابلیت کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں تعینات کر دیں۔