24 اراکین اسمبلی عمران خان کا ساتھ چھوڑنا چاہتے ہیں، محفلوں میں برملا اظہار کر چکے

24 اراکین اسمبلی عمران خان کا ساتھ چھوڑنا چاہتے ہیں، محفلوں میں برملا اظہار کر چکے
شاہد میتلا نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی میں کم از کم 24 ایسے اراکین اسمبلی موجود ہیں جو عمران خان کو دھوکا دے سکتے ہیں۔ اب تو کئی رہنما محفلوں میں برملا کہتے ہیں کہ ہم اگلے الیکشن میں ساتھ نہیں دینگے۔
انہوں نے بتایا کہ متعدد اراکین اسمبلی نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی میں جانا ہماری بہت بڑی سیاسی غلطی تھی۔ ان میں ایسے اراکین بھی شامل ہیں جنھیں پی ٹی آئی نے ہی سیاست میں آنے کا موقع فراہم کرتے ہوئے پارلیمنٹ کا ممبر بنوایا، وہ بھی ناراض نظر آتے ہیں۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے شاہد میتلا نے انکشاف کیا کہ عمران خان نے جب اعتماد کا ووٹ لینا تھا تو اس وقت دو اراکین کو کلبھوشن یادو کے اس کنٹینر میں بند کر دیا گیا تھا جس میں اس کی والدہ اور اہلیہ سے ملاقات کرائی گئی تھی۔ یہ بھی خبریں آئی تھیں کہ بعض پی ٹی آئی کے ایم این ایز کو مارا پیٹا بھی گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ فون کالز نہیں کی گئیں تو عمران خان کو فنانس بل پاس کرانے میں مشکل ہوگی۔ تاہم اس کا پاس ہونا ملکی مفاد میں ہے کیونکہ ہمیں آئی ایم ایف کے پیسوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے اوپر دیوالیہ ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اس لئے لوگوں پر دبائو ڈالا جائے گا کہ آپ منی بجٹ پاس کروانے میں حکومت کی مدد کریں اور ووٹ دیں۔
ایم کیو ایم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال وہ فنانس بل کی مخالفت کریں گے۔ یہ ان کا پرانا وطیرہ ہے کہ آئے روز بیویوں کی طرح روٹھتے ہیں اور پھر اگلے ہی روز مان بھی جاتے ہیں۔ ان کو بھی اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ووٹ تو دینا پڑے گا۔ صرف ایک فون کال آئے گی اور وہ ووٹ دینے پر راضی ہو جائیں گے۔
وزیراعظم کے دورہ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ مجھے دونوں جانب اعتماد بحال کرنے کی ایک کڑی نظر آ رہا ہے کیونکہ ون پیج والی بات اب نہیں رہی۔ وزیراعظم عمران خان اور وزرا اس بات کو لے کر بہت پریشان ہیں۔
پروگرام کے دوران شریک گفتگو شاہد محمود کا کہنا تھا کہ منی بجٹ آنے سے قبل ہی مہنگائی کی لہر آ چکی ہے۔ جس شخص کو تھوڑی سی بھی اقتصادی حالات کی سمجھ ہے اسے صاف نظر آ رہا ہے کہ کیا نقصان ہو چکا ہے۔ پانچ ماہ بعد ہی دوبارہ بجٹ لانا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہماری ریکارڈ محصولات ہیں۔ اگر پاکستان کی آمدن اتنی ہی اچھی ہے تو یہ بجٹ لانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ بچوں کے دودھ پر جو ٹیکس لگایا ہے اس بارے میں آئی ایم ایف سے التجا کی جائے گی کہ وہ اس میں ہمیں تھوڑی سے لچک دیدے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری اقتصادی پالیسیاں اور بجٹ کون بنا رہا ہے۔