اگر عمران خان نے اپنا من پسند آرمی چیف لانے کی کوشش کی تو اس کا پہلا ٹارگٹ نواز یا زرداری نہیں بلکہ وہ خود ہونگے

اگر عمران خان نے اپنا من پسند آرمی چیف لانے کی کوشش کی تو اس کا پہلا ٹارگٹ نواز یا زرداری نہیں بلکہ وہ خود ہونگے
محسن بیگ نے کہا کہ خان صاحب نے اگر ایسا کوئی ایڈونچر کیا تو اس کی قیمت انھیں چکانا پڑے گی۔ نئے آرمی چیف کی تعیناتی نومبر 2022 میں ہوگی لیکن چھ ماہ پہلے انہوں نے من مانی کرکے قومی ادارے کو غلط ٹریک پر ڈالنے کی کوشش سے ان کو نقصان ہوگا۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان باہر نکلے تو ان کیلئے حالات بہت مختلف ہونگے۔ ملک کی معیشت کا انہوں نے جو برا حال کر دیا ہے، لوگ ان سے بہت ناراض اور غصے میں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہیں لیکن جمہوری طریقے سے ان کیخلاف کوئی تحریک آئی تو وہ اس کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔ ان کی کشتی ڈوبنے والی ہے۔ لوگ جانے بچانے کیلئے چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ شوکت ترین سمیت دیگر تیار بیٹھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شوکت ترین کے اپنے بینک کے مسائل ہیں جو سٹیٹ بینک نے حل کرنے تھے لیکن رضا باقر ایسا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس لئے وزیر خزانہ کورونا کا بہانہ کرکے گھر جا کر بیٹھ گئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں رضا باقر مزید مضبوط ہونگے۔ مجھے لگتا ہے کہ رضا باقر رہیں گے لیکن شوکت ترین حکومت کی کشتی سے چھلانگ لگا دیں گے۔

محسن بیگ کا کہنا تھا کہ عمران خان کیخلاف تحریک عدم لائی جانے کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل پر بات چیت کا عمل جاری ہے۔ اس صورتحال میں اپوزیشن والے اور خان صاحب دونوں ایک دوسرے سے ڈر رہے ہیں۔ تاہم اس کا رزلٹ ضرور نکلے گا۔ کسی نہ کسی نکتے پر اپوزیشن رضامند ہو جائے گی۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لوگ پی ٹی آئی چھوڑ کر ن لیگ کیساتھ شامل ہونے کو تیار ہیں لیکن نواز شریف کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ وہ اتنے زیادہ لوگوں کو کہاں ایڈجسٹ کریں۔ اگر آج الیکشن ہوں تو ن لیگ سوئپ کر جائے گی۔ اس لئے ہر ایم این اے یا ایم پی اے کی خواہش ہے کہ اسے نواز شریف اپنے ساتھ ملا لیں، کیونکہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتنا تو دور کی بات وہ اپنے حلقے کے عوام کا سامنا تک نہیں کر سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کیلئے اپوزیشن کو پی ٹی آئی کے لوگوں کی ہی ضرورت ہوگی۔ اگر اپوزیشن اکھٹی نہ ہوئی، عمران خان بیٹھے رہے اور نومبر میں تبدیلی لے آئے تو ان کی چیخیں یورپ تک سنی جائیں گی۔

پروگرام میں شریک گفتگو معاشی ماہر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے دنیا کے 180 ممالک کا سروے کرکے ہمیں 140ویں نمبر پر رکھا ہے۔ مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ صرف ایک سال میں ہم 16 پوائنٹس گر جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکمران تو ہمیں نیب کے بارے میں بتا رہے تھے کہ اس کی جانب سے کڑا احتساب کیا جا رہا ہے لیکن عالمی ادارے اس کی حقیقت کچھ اور ہی بتا رہے ہیں۔ جس ملک میں احتساب نہ ہو وہاں کرپشن بڑھتی چلی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ صرف کچھ ممالک میں کرپشن میں اضافہ ہوا اور ان میں سے ایک ملک ہمارا پاکستان ہے۔

انہوں نے کہا کہ جن ملکوں میں غربت بڑھتی ہے وہاں بتدریج کرپشن کی شرح بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایک اندازے مطابق پاکستان میں 9 کروڑ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان میں غربت کی شرح 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے علاوہ جن ممالک میں بے روزگاری بڑھ جائے اور حکومت کے اوپر عوام کا اعتماد ختم ہو جائے وہاں اس کے اثرات بہت گہرے ہو سکتے ہیں۔