اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے والے بلوچ طلبہ پر اسلام آباد پولیس کا بہیمانہ تشدد، متعدد کی حالت غیر

اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے والے بلوچ طلبہ پر اسلام آباد پولیس کا بہیمانہ تشدد، متعدد کی حالت غیر
اسلام آباد پولیس نے اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے پر بلوچ طلبہ پر بہیمانہ تشدد کیا۔ طلبہ اسلام آباد پریس کلب سے ڈی چوک کی طرف مارچ کر رہے تھے کہ اچانک پولیس نے ان پر لاٹھی چارج شروع کردیا۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد پریس کلب میں یونیورسٹیوں کی اندر سیکیورٹی کے نام پر بلوچ طلبہ کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے اور طالبعلم حفیظ بلوچ کی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف پریس کانفرنس کی گئی۔



اس میں ایڈوکیٹ ایمان مزاری نے بلوچ طلبہ کے ساتھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ سیکیورٹی کے نام پر بلوچستان کے طالب علموں کو یونیورسٹیوں کے اندر ہراساں کرنا بند کر دیں۔

بلوچ طلبہ نے پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا گیا تھا، مگر اسلام آباد پولیس کی جانب سے خیمے کو اتار کر جنریٹر سمیت تھانے منتقل کر دیا جس کے بعد طلبہ نے پریس کلب سے متصل روڈ کو بلاک کر دیا۔



موقع پر اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ پہنچی اور طلبہ کو ایڈوکیٹ ایمان مزاری اور ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ کی موجودگی میں یقین دلایا کہ وہ آدھے گھنٹے میں تمام سامان واپس کردینگے مگر دو گھنٹے گزرنے کے باوجود سامان واپس نہیں کیا گیا جس کے بعد طلبہ نے ڈی چوک کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کیا۔

اس موقع پر اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری موجود تھی اور جیسے ہی طلبہ نے ڈی چوک کی طرف پیش قدمی شروع کی تو پولیس کی جانب سے ان کو روکنے کی کوشش کی گئی تو طلبہ نے اہلکاروں کو دھکے دئیے جس کے بعد پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کیا گیا۔ لاٹھی چارج سے کچھ بلوچ طلبہ زخمی ہوگئے۔



بعد ازاں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد محمد حمزہ شفقات طلبہ سے مذاکرات کرنے پہنچے اور پولیس لاٹھی چارج پر معافی مانگی۔ تاہم طلبہ کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

پولیس اور اسلام آباد انتظامیہ کے افسران نے طالب علموں سے کہا ہے کہ آسٹریلین کرکٹ ٹیم کی موجودگی کی وجہ سے سیکیورٹی کے معاملات انتہائی حساس ہیں، اس لئے ڈی چوک پر احتجاج کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔