شیرانی اور کوہ سلیمان جنگلات میں لگی آگ کو ایرانی جہاز کی مدد سے بجھانے کی کوششیں

شیرانی اور کوہ سلیمان جنگلات میں لگی آگ کو ایرانی جہاز کی مدد سے بجھانے کی کوششیں
بلوچستان کے ضلع شیرانی اور کوہ سلیمان میں چلغوزے کے سب سے بڑے جنگل میں لگی آگ پر 13ویں دن بھی قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے بے بسی کے بعد ایران کی مدد سے جنگلات میں لگی آگ پر قابو پانے کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔

گذشتہ روز چیف سیکرٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی نے ضلع شیرانی کے جنگلات میں لگنے والی آگ کو قابو نہ کر سکنے پر بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان میں اس نوعیت کی آگ پہلی دفعہ لگی ہے، اس کو بجھانے کی استعداد پاکستان میں نہیں ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین سے رابطہ کر لیا گیا ہے۔ این ڈی ایم اے نے ہیلی کاپٹرز بھیجے ہیں لیکن کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ پاکستان محکمہ خارجہ کے ذریعے بیرون ممالک سے رابطہ کرکے آگ بجھانے کی کوشش کرے گا۔

9 مئی کو شیرانی کے علاقے مغل کوٹ میں آسمانی بجلی گرنے سے آگ لگی تھی جبکہ 18 مئی کو خیبر پختونخوا میں لگنے والی آگ نے بلوچستان کے ضلع شیرانی کی یونین کونسل شرغلی، سرغلئی اور تخت سلیمان کے پہاڑی سلسلے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جہاں چلغوزوں کے سب سے گھنے جنگلات واقع ہیں۔ ڈپٹی کمشنر شیرانی اعجاز احمد جعفر کے مطابق آگ کی شدت بہت زیادہ ہے ایک جگہ کی آگ بجھائیں تو دوسری جگہ لگ جاتی ہے۔

ہفتے کے روز وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو، وفاقی وزیر ہائوسنگ مولانا عبدالواسع نے ضلع شیرانی کا دورہ کیا۔ اس موقع پر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی، چیف سیکرٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ سیکرٹری جنگلات وجنگلی حیات دوستین جمالدینی کی جانب سے انہیں بریفنگ دی گئی۔

میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ ضلع شیرانی کے جنگلات میں لگی آگ پر قابو پانے کے لئے وفاقی حکومت کی خصوصی کوششوں سے دوست ملک ایران نے جہاز فراہم کر دیا ہے جو جلد شیرانی میں آپریشن شروع کردے گا جبکہ پی ڈی ایم اے اور این ڈی ایم اے مکمل طور پر الرٹ ہے، ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ شیرانی میں پی ڈی ایم اے نے امدادی کیمپ قائم کر دیا ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے گذشتہ روز کوہ سلیمان رینج میں لگی آگ بجھانے کے دوران شہید ہونے والے تین افراد کے لواحقین کے لئے دس لاکھ جبکہ زخمیوں کے لئے پانچ لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا اور وفاقی حکومت بھی شہدا اور زخمیوں کے لئے امداد کا اعلان کرے گی۔

ڈپٹی کمشنر شیرانی اعجاز احمد جعفر نے بتایا کہ ایران سے جہاز اتوار تک پاکستان پہنچنے کا امکان ہے۔ اس حوالے سے مزید انتظامات وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے جاری ہے۔ جنگلات میں لگی آگ کو بجھانے کیلئے ہیلی کاپٹرز تیسرے روز بھی مصروف رہے۔ پہلے دن تقریباً 3 ہزار لیٹر پانی جبکہ دوسرے تین 6 ہزار لیٹر پانی جبکہ تیسرے دن 3 ہزار پانی آگ پر پھینکا گیا ہے۔ ہماری پہلی کوشش ہے کہ آگ آبادی کی طرف نہ بڑھے۔

ڈپٹی کمشنر شیرانی کا کہنا تھا کہ آگ کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ اسے پیدل جا کر بجھانا ممکن نہیں لگ رہا۔ آگ سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ بعد میں لگایا جائے گا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ضلع شیرانی کے جنگلات میں لگنے والی آگ بجھانے کیلئے پی ڈی ایم اے، این ڈی ایم اے کے ساتھ ہم آہنگی کے تحت امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ پاک فوج اور ایف سی کے جوان بھی آگ بجھانے میں مصروف ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آگ پہاڑی چوٹیوں پر  تقریباً 10 ہزار فٹ اونچائی پر لگی ہوئی ہے۔ گرم موسم، خشک ہوائوں کی وجہ سے آگ پھیل رہی ہے۔ آبادی اس سے 8 سے 10 کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔ قریب رہائش پذیر خاندانوں کو ایف سی کی جانب سے مانیخواہ میں قائم میڈیکل کیمپ میں منتقل کیا گیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق این ڈی ایم اے کی جانب سے ایف سی بلوچستان کے ذریعے 400 فائر بالز، 200 فائر سوٹ، کمبل، خیمے، چٹائیاں اور آگ بجھانے کا سامان فراہم کیا گیا ہے۔ فوج نے امدادی سامان بھی لاہور سے ژوب پہنچا دیا ہے۔

بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین قاسم علی گاجزئی نے شیرانی کے جنگلات میں لگی آگ کو کئی دن گزرنے کے باوجود قابو نہ پانے پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ژوب بلوچستان اور خیبرپختونخوا کا بارڈر ہے جس کی وجہ سے نہ بلوچستان حکومت اور نہ ہی خیبر پختونخوا حکومت اس میں دلچسپی لے رہی ہے۔ آگ کی وجہ سے انسانی جانیں، جنگلی حیوانات اور لاکھوں کی تعداد میں قیمتی درخت جل گئے ہیں مگر ابھی تک آگ پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ ہم بلوچستان بارکونسل کے توسط سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ شیرانی کے جنگلات میں لگنے والی آگ پر سوموٹو نوٹس لے کر حکام بالا سے اس بارے مکمل تفتیش کرے۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ جلد سے جلد ایکشن لے کر اس مسئلے کو حل کریگی۔

بلوچستان میں جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی سماجی تنظیم اشر تحریک کے سالمین خپلواک نے جنگلات میں لگنے والی آگ کے واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ آگ لگنا کوئی اتفاقیہ بات نہیں ہو سکتی۔ مرکزی وصوبائی حکومتوں کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے وزیراعظم پاکستان سے اپیل کی کہ ہنگامی بنیادوں پر بین الاقوامی اداروں سے آگ پر قابو پانے کیلئے مدد لی جائے۔

سالمین خپلواک کا کہنا تھا کہ متعلقہ حکام کو بارہا جگانے کی کوشش کی لیکن سنجیدہ نہ لیا گیا یہ آگ ناصرف موسمیاتی حوالے سے بلکہ مقامی لوگوں کے معیشت کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یہاں کیلئے ایک میکنزم بنایا جائے کہ یہاں اگر کبھی آگ لگے تو پھر اس کے تدارک کیلئے بروقت اقدامات اٹھائے جا سکیں۔ ہرنائی سے لے کر موسیٰ خیل اور شیرانی کے پہاڑی سلسلوں کو ریڈ زون قرار دیا جائے۔ یہاں درختوں کے جلنے سے موسمیاتی حوالے سے بہت اثرات ناصرف بلوچستان بلکہ پاکستان اور دنیا پر مرتب ہونگے۔

یاد رہے کہ بلوچستان کے ضلع شیرانی اور موسیٰ خیل کے پہاڑی سلسلوں میں واقع یہ جنگل چلغوزوں کا سب سے بڑا قدرتی جنگل ہے۔ آگ نے کئی کلومیٹر کے رقبے پر لاکھوں قیمتی درختوں کو تباہ اور جنگلی حیات کو نقصان پہنچایا ہے۔ شیرانی، موسیٰ خیل اور اب کوہلو کے پہاڑی سلسلے کی جنگلات میں آگ لگنے کا یہ چوتھا واقعہ ہے۔