آڈیو لیکس کا معاملہ کہیں نہ کہیں آرمی چیف کی تعیناتی سے جڑا ہوا ہے: کامران یوسف

آڈیو لیکس کا معاملہ کہیں نہ کہیں آرمی چیف کی تعیناتی سے جڑا ہوا ہے: کامران یوسف
معروف صحافی کامران یوسف نے کہا ہے کہ جب تک نومبر میں آرمی چیف کی تعیناتی کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ جاتا تب تک موجودہ حکومت سیف زون میں نہیں جا سکتی کیونکہ پاکستان کی سیاست میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے اور عمران خان بھی 'آخری واردات' کی بات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ آڈیو لیکس والا معاملہ بھی کہیں نہ کہیں نومبر والی تعیناتی سے جڑا ہوا ہے۔ آڈیو لیکس کا معاملہ اس لئے بھی حساس ہے کہ اس سے پاکستان کے دنیا کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو "خبر سے آگے" میں اسحاق ڈار کی واپسی سے متعلق عمران خان کے بیان سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس میں انہوں نے ملک کی اسٹیبلشمنٹ یعنی آرمی سے بھی شکوہ کیا کہ انہوں نے اسحق ڈار کو واپس آنے سے نہیں روکا۔ عمران خان کی جانب سے ایک ایسے ادارے کو اکسانا جس کا یہ مینڈیٹ ہی نہیں ہے ایک غیر جمہوری بات ہے۔ اسحاق ڈار کی واپسی ایک لٹمس ٹیسٹ ہے اور اگر سب ٹھیک چلتا ہے تو الیکشن سے پہلے نواز شریف بھی واپس آ سکتے ہیں۔ انہی وجوہات کی وجہ سے عمران خان فرسٹریشن کا شکار ہیں۔ عمران خان کا اسحاق ڈار کے خلاف بیان ان کی فرسٹریشن کو ظاہر کر رہا ہے۔

اگر ہم یہ سمجھیں کہ نواز شریف (ن) لیگ سے الگ تھلگ ہیں اور کسی فیصلہ سازی میں ان کا کردار نہیں ہونا چاہئیے تو ہم احقموں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ نواز شریف اس بات پر غیر مطمئن تھے کہ اگلے الیکشن میں جانے سے پہلے عوام کو ریلیف ملنا چاہئیے۔ اسی لئے انہوں نے اسحاق ڈار کو واپس بھیجا۔

پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے معروف کالم نگار مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کی آج کی پریس کانفرنس میں واضح پیغام تھا کہ عمران خان سے کسی بھی معاملے پر اب کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ پریس کانفرنس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ مجھے آج مختلف شہباز شریف نظر آئے۔ اپریل کے بعد سے مجھے آج پہلی بار وہ بہت پر اعتماد نظر آئے جیسے سارے معاملات حل ہو گئے ہوں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اب انہیں لگ رہا ہے حکومت سیف زون میں پہنچ گئی ہے اور گومگو کی ساری صورت حال ختم ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ فارن پالیسی کے حوالے سے بھی چیزیں طے ہو گئی ہیں۔ کہیں نہ کہیں موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان یکسوئی پیدا ہو گئی ہے کہ اس ملک کو کسی طرح چلانا ہے۔ شاید خان صاحب کو واپس لانے والے تمام آپشن ختم کر دیئے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ حل ہوا ہے تو ڈار صاحب واپس آئے ہیں۔ وہ بات طے ہو گئی ہے۔ کیونکہ عمران خان کی آج کی تقریر میں بھی ناامیدی جھلکتی ہے کہ محافظوں نے بھی کچھ نہیں کیا۔ اسحق ڈار واپس آ گئے، مریم کا پاسپورٹ واپس ملنے والا ہے، الیکشن کمیشن میں ان کے خلاف دائر کی گئی درخواست واپس لے لی گئی۔ تو یہ سب چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ معاملات طے پا گئے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کی طرف بھی کافی چیزیں بدل گئی ہیں۔ عمران خان نے بھی اپنی کور کمیٹی کو نظر انداز کر دیا ہے۔

پروگرام کے میزبان مرتضیٰ سولنگی تھے۔