ٹیکس کا شفاف نظام ملکی ترقی کا ضامن ہوتا ہے

ٹیکس کا شفاف نظام ملکی ترقی کا ضامن ہوتا ہے
ٹیکس کسی بھی ریاست کی ترقی اور معاشی نظام کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لئے ٹیکس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ ٹیکسوں کے علاوہ بیرونی قرضوں پر بھی چلتا ہے۔ ریاست جب عوام سے ٹیکس اکٹھا کرتی ہے تو اس کے بدلے میں عوام کو بہت سی سہولتیں دینے کا وعدہ کرتی ہے۔ یہ سہولیات فراہم کرنا ہر ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی شہری ٹیکس دے کر ریاست کی جانب سے سہولیات نہ ملنے پر شکایت، سوال یا احتجاج کر سکتا ہے یا نہیں اور اگر سوال کرے تو اس کی بات کو ریاستی نمائندے سنجیدگی سے سنیں گے یا الٹا اسے ذلیل و خوار کر دیا جائے گا، یہ ایک الگ بحث ہے۔

ہمارے جیسے ملکوں میں سب سے پہلا مسئلہ تو ٹیکس دینا ہے۔ اگر ہم ذمہ داری سے ٹیکس ہی نہیں دیتے یا دینا چاہتے تو ریاست سے مفت طبی سہولتیں، مفت تعلیم، سڑکوں وغیرہ جیسی سہولیات کا مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں مثلاً امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا وغیرہ جہاں مجھے زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا ہے وہاں کے ٹیکس کے نظام اور پاکستان کے ٹیکس کے نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان ممالک میں ریاست ڈنڈے کے زور پر ٹیکس لیتی ہے اور ٹیکس چوری ثابت ہونے پر سزا بھی بھگتنا پڑ جاتی ہے۔ شہریوں کی اکثریت بھی ٹیکس ادا کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے کیوںکہ انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا ٹیکس فلاحی منصوبوں اور ان کے اپنے فائدے کے لئے خرچ ہو گا۔ دوسری جانب ہم پاکستان میں ٹیکس دینا ہی نہیں چاہتے اور ریاست بھی کوئی شفاف طریقہ متعارف کرانے سے قاصر ہے جس سے ٹیکس کی وصولی اور اس کو شفاف طریقے سے عوامی فلاحی منصوبوں پر خرچ کیا جا سکے۔

اس کے علاوہ ٹیکس کے معاملے میں لوگوں میں آگاہی بھی بہت کم ہے۔ جیسا کہ ٹیکس کی کئی اقسام ہیں اور حکومت جب ڈنڈے کے زور پر سیلز ٹیکس لیتی ہے کچھ لوگ اسی ٹیکس کو اِنکم ٹیکس بھی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک قصہ بھی یاد آ گیا کہ ایک دفعہ ایک جاننے والے جو کہ ایک چھوٹا سا کاروبار کرتے ہیں، سے ٹیکس ادا کرنے کے بارے میں بات ہو رہی تھی اور میں نے ان سے کہا کہ آپ اگر ریاست کو اِنکم ٹیکس ادا نہیں کرتے تو آپ کو ادا کرنا چاہئیے۔ اس بارے میں اس سادہ لوح شخص کا یہ کہنا تھا کہ وہ سیلز ٹیکس بھی ادا کرتا ہے، جو ٹیکس بجلی کے بل میں حکومت لیتی ہے وہ بھی ادا کرتا ہے، تو کیا یہ سب کافی نہیں ہے؟ میں نے اسے سمجھایا کہ وہ ٹیکس تو حکومت یا نجی کمپنیاں ڈنڈے کے زور پر لیتی ہیں جب کہ میں آپ کی کمائی پر جو ریاست کا حق بنتا ہے اس کی بات کر رہا ہوں۔ ایسے کئی واقعات ہیں جن میں عوام کو پتا ہی نہیں کہ اگر وہ اپنی گلی میں چپکے سے کریانہ سٹور یا کوئی اور کاروبار شروع کرتے ہیں تو اس پر بھی ٹیکس دینا بنتا ہے۔ اس سلسلے میں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو آگاہی فراہم کرے۔

بالفرض اگر اپنا فرض سمجھتے ہوئے یا پھر ڈنڈے کے ڈر سے لوگ ٹیکس دینا شروع کر دیتے ہیں تو اگلا مسئلہ ریاست کے لئے ایسے شفاف نظام کا قیام ہے جس کے تحت عوام کے ٹیکس کا پیسہ کسی کی ذاتی تجوری میں جانے کی بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو اور اگر کوئی اس پیسے کے ساتھ بے ایمانی کرے تو اسے بلاتفریق سخت سے سخت سزا ملے۔ یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب قانون سب کے لئے برابر ہو اور عوام میں ڈنڈے کے خوف کی بجائے اپنا فرض سمجھتے ہوئے ٹیکس ادا کرنے کا شعور پیدا ہو۔ اگر ہم پاکستان کو ترقی کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں تو سب اہل افراد کو ٹیکس دینا ہو گا اور ریاست کو کرپشن سے پاک نظام کے تحت اس ٹیکس کو عوام کی بہبود پر خرچ کرنا ہو گا ورنہ بھکاریوں کی طرح ہر حکومت کشکول تھامے بیرونی امداد کی منتظر رہے گی اور عوام کی حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔