وہ نوجوان بار بار اسٹیج منتظمین سے فرمائش کررہا تھا کہ اُسے ایک بار گلوکاری کا موقع دے دیا جائے لیکن اس کی اس آرزو کو بار بار رد کیا جارہا تھا۔ لاہور میں ہونے والا یہ میوزیکل شو تھا، جس میں کئی شہرت یافتہ گلوکار اپنے فن کا اظہار کررہے تھے اور اِس نوجوان کی خواہش تھی کہ وہ بھی گلوکاری کرے، کیونکہ اسی شوق کے خاطر وہ گھر بار چھوڑ چکا تھا۔ والد کی مخالفت اور ناراضگی برداشت کی تھی مگر گلوکاری سے کنارہ کشی اختیار نہ کرسکا۔ اُسے یاد تھا کہ جب والد نے سخت لہجے میں دوٹوک لفظوں میں کہا کہ یا تو وہ گلوکاری کا انتخاب کرے یا گھر کا، تو اُس کی ترجیح گلوکاری رہی۔ وہ کیسے بھول سکتا ہے کہ اُس نے گلوکاری کے اس شوق کی ابتدائی تربیت موسیقار محبوب علی خان سے حاصل کی تھی، جنہوں نے نوجوان گلوکار کو بنیادی رموز سے آگاہی دی تھی۔
نوجوان نے ایک بار منتظمین سے جب گیت گانے کی فرمائش کی تو انہوں نے بھی جھلا کر اُسے اس وقت موقع دیا، جب بیشتر گلوکار فن کا مظاہرہ کرچکے تھے اور کم و بیش شو ختم ہونے کو تھا۔ نوجوان پراعتماد انداز میں اسٹیج پر آیا تو کسی منجھے ہوئے گلوکار کی طرح ایسی گلوکاری کی کہ جو تھوڑے بہت مہمان بچے تھے، انہوں نے داد دینے میں کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہی مہمانوں میں بیٹھے ہوئے موسیقار حسن لطیف کو اس نوآموز گلوکار کی سریلی اور مدھر آواز بھا گئی۔ جنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس نوجوان کو فلم میں گلوکاری کا موقع دیں گے۔ جبھی ’نرگس‘ کے لیے انہوں نے اس نوجوان کو جو بعد میں مجیب عالم کے نام سے مشہور ہوا، ایک نغمے ’کہیں آہ بن کر تیرا نام دل پے آ‘ گنگنایا۔ جسے حبیب جالب نے لکھا تھا۔ مجیب عالم نے ایسی ڈوب کر گلوکاری کی کہ ہر کوئی ان کا مداح ہوگیا۔بدقسمتی ہی کہیے کہ ’نرگس‘ پردہ سیمیں کی زینت نہ بن سکی لیکن
مجیب عالم کے بارے میں فلمی حلقوں میں یہ مشہور ہوگیا تھا کہ ایک نیا نوجوان آیا، جسے سر اور تال میں غیر معمولی مہارت حاصل ہے۔ جس کے بعد انہیں فلمی دنیا میں قدم جمانے کے لیے زیادہ محنت نہ کرنی پڑی۔ 1966میں مجیب عالم کو مجبور، جلوہ اور حسن کا چور میں گانے کا موقع ملا۔ جبکہ ’لوری‘ میں ان کا گیت ’میں خوشی سے کیوں نہ گاؤں‘ نے تو جیسے دل کے جلترنگ بجا دیے۔ پھر اگلے برس، میں وہ نہیں اور جان پہچان جیسی فلموں میں گلوکاری دکھائی۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ مجیب عالم کی اصل شہرت کا سفر ’چکوری‘ سے شروع ہوا۔ ندیم بیگ کی اس میوزیکل رومانی فلم میں ان کا گایا ہوا گیت ’ وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں‘ تو زبان زد عام ہوا۔دل کو چھو لینے والی اس نغمہ سرائی پر انہیں اُس سال بہترین گلوکار کا نگار ایوارڈ بھی ملا۔ ایک نوآموز گلوکار ہوتے ہوئے انہوں نے 1967میں ’لاکھوں میں ایک‘ میں ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ ’ساتھی کہا ں ہو تم‘ گایا۔ جو شمیم آرا اور اعجاز درانی پر فلمایا گیا۔ آنے والے برسوں میں مجیب عالم کا کوئی نہ کوئی گیت کسی نہ کسی فلم میں ضرور شامل کیا جاتا۔
گلوکار مجیب عالم 70کی دہائی تک پاکستانی فلموں کے مصروف ترین گلوکار کا درجہ حاصل کرگئے تھے۔ مہدی حسن، احمد رشدی اور دیگر گلوکاروں کی موجودگی میں مجیب عالم کا اپنا ایک مستحکم مقام تھا۔ بلکہ وہ 1968 میں نمائش پذیر فلم ’میری دوستی میرا پیار‘ میں احمد رشدی کے ساتھ بھی گلوکاری کرچکے ہیں۔ دونوں نے لہک لہک کر ’بے قرار کرکے ہمیں چل دیے حضور‘ جب گایا تو ہر ایک ان کے ساتھ جھومنے لگا۔
کیسے ذہنوں سے فراموش کیا جاسکتا ہے 1970میں آئی فلم ’شمع اور پروانہ‘ کا شہرت یافتہ نغمہ ’میں ترے اجنبی شہر میں‘ کو اسی طرح وحید مراد پر فلمایا ہوا فلم ’افسانہ‘ کا گیت ’یوں کھو گئے ترے پیار میں‘ آج تک مشہور ہے۔ کون بھول سکتا ہے کہ ہدایتکار ریاض شاہد کی فلم ’یہ امن‘ میں مجیب عالم کے گائے ہوئے گانوں کو۔
مجیب عالم کی گلوکاری کی خاصیت یہ رہی کہ ان کی آواز ہر اداکار پر انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ بیٹھتی۔ چاہے وہ ندیم، محمد علی، وحید مراد ہوں یا پھر اعجاز، مجیب عالم ہر اداکار اور سین کے تقاضوں کو ذہن میں رکھ کر ہی بہترین گلوکاری کرتے۔ مجیب عالم کی فن گلوکاری کا یہ سفر 80کی دہائی تک جاری رہا اور پھر وہ دھیرے دھیرے فلمی دنیا سے دور ہوتے گئے۔ مجیب عالم کی زیادہ تر توجہ پھر ٹی وی شوز میں نغمہ سرائی پر رہی۔۔ گلوکار مجیب عالم نے کم و بیش 62فلموں میں 90کے قریب گانے گائے۔ ان میں 10پنجابی زبان کے گانے بھی شامل ہیں۔ بدقسمتی یہ رہی کہ اس قدر خوبصورت اور پراثر گلوکاری کرنے والے اس عظیم گلوکار کو کبھی بھی سرکاری سطح پر پذیرائی نہ مل سکی اور پھر 2جون 2004کو یہ سریلا گلوکار خاموشی سے دنیا سے منہ موڑ گیا۔