تحریک عدم اعتماد جمعے کو پیش ہونے کا امکان

تحریک عدم اعتماد جمعے کو پیش ہونے کا امکان
سینئر صحافی اعزاز سید نے کہا ہے کہ مجھے تو لگتا ہے کہ شاید جمعہ کو ہی کسی وقت تحریک عدم اعتماد پیش ہو جائے کیونکہ مولانا فضل الرحمان نے جو 48 گھنٹے بتائے تھے، اس حساب سے 24 گھنٹے گزر چکے ہیں۔ جمعہ کے روز دن 12 بجے تک لگتا ہے یہ کام ہو جائے گا۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے کالم میں زرداری اور شہباز صاحب کی جس ملاقات کا ذکر کیا وہ دسمبر یا جنوری میں ہوئی تھی۔ اس میں دونوں شخصیات کو کہہ دیا گیا تھا کہ ہم نیوٹرل ہیں۔ تاہم نیوٹرل ہونے سے ان کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ ہم اپوزیشن کیساتھ ہیں۔

اعزاز سید نے کہا کہ اسی اعتماد کے تحت اپوزیشن نے اپنی ایکٹیویٹی کا آغاز کیا ہوا ہے۔ یہ بھی سوال ہے کہ پہلی عدم اعتماد سپیکر اسد قیصر کیخلاف فائل کی جانی ہے یا وزیراعظم عمران خان کیخلاف؟ تاہم عقلمندی یہی ہوگی کہ پہلے سپیکر کیخلاف یہ اقدام اٹھا کر یہ نشست اپنے کنٹرول میں لائی جائے۔

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت دفاعی پوزیشن میں جا چکی ہے۔ حکمران گھبرائے ہوئے ہیں۔ ان کی فیصلہ سازی کی قوت بہت کمزور ہو چکی ہے۔

پروگرام میں شریک نادیہ نقی نے کہا کہ اس وقت ایم کیو ایم ہمیں وہی کرتی نظر آ رہی ہے جو ہم پچھلے ساڑھے تین سال سے دیکھ رہے ہیں۔ گذشتہ روز خالد مقبول صدیقی کا یہ بیان بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ ہم پاکستان کا مفاد دیکھیں گے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں مجھے لگتا ہے کہ ایم کیو ایم والے، ق لیگ کی جانب دیکھ رہے ہیں کیونکہ اندرون خانہ جو بات چیت ہوئی ہے اس سے یہ بات واضح ہے کہ یہ فیصلہ مشاورت کیساتھ کیا جائے گا۔ ایم کیو ایم سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ کو اشارہ مل گیا ہے کہ آپ اپنی مرضی کریں تو ان کا کہنا تھا کہ جی گیم از آن۔

مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ گیم تو واقعی آن ہے۔ وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیر یا بدھ کے روز پیش کر دی جائے گی۔ اس کے بعد 15 روز کے اندر اس پر ووٹنگ کا عمل ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن نے تحریک عدم اعتماد کیلئے یا تو ترین گروپ کا بوجھ اٹھانا تھا یا ق لیگ کا۔ کیونکہ اگر دونوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا تو ان کیساتھ آئندہ انتخابات میں ٹکٹوں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات طے کرنا پڑتے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے سے تو ن لیگ خود مائنس ہوتی۔ لوگوں کو مناتے مناتے ان کے اپنے لوگوں نے ناراض ہوجانا تھا۔ اس لئے ان دونوں میں سے کسی ایک کا بوجھ اٹھانا اب ناراض اراکین کیساتھ عدم اعتماد لانے کی بات کی جا رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عمران خان نے چودھری پرویز الہیٰ کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا کہا ہے۔ لیکن چودھریوں کا موقف یہ ہے کہ اگر عثمان بزدار اس وقت استعفیٰ بھی دیدیں تو اس کے باوجود وزیراعظم کے پاس اتنی اکثریت ہی نہیں ہے کہ وہ پرویز الہیٰ کو لا کر انھیں منتخب کرا دیں۔