عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے مذاکرات میں کچھ مثبت اشارے ملے ہیں جس کے بعد ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے بھی جلد ہی پاکستان کو بجٹ سپورٹ کے لیے ایک ارب ڈالر دینے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
اے ڈی بی کے بورڈ آف گورنرز کے 52 ویں سالانہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے بینک کے صدر تکی ہیکو ناکائو نے کہا، پاکستان کی جانب سے ان کے بینک کو بجٹ سپورٹ کے لیے قریباً ایک ارب ڈالر کی درخواست موصول ہوئی تھی۔
انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے مزید کہا، ہم آئی ایم ایف پروگرام پر مذاکرات کے حوالے سے مثبت نتائج کی امید کر رہے ہیں اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ہم بجٹ سپورٹ اور دیگر پالیسی قرضوں کو جلد بڑھانے پر خوش ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا دورہ چین، آئی ایم ایف، ورلڈ بنک کی قیادت سے ملاقاتیں
تاہم، تکی ہیکو ناکائو نے آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج کے اجرا میں تاخیر پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان ادائیگیوں کے توازن کے لیے بارہا آئی ایم ایف کے پاس گیا، آئی ایم ایف کا بارہا دورہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ زیادہ بہتر ہے کہ پاکستان زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ ادائیگیوں کے توازن اور ملکی مالی معاملات حل کرے۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات اور سادگی ڈاکٹر عشرت حسین نے اے ڈی پی اور آئی ایم ایف کے اعلیٰ حکام سے ملاقات میں یہ تسلیم کیا تھا کہ پاکستان مالیاتی ذمہ داریوں اور قرض کے حد کے قانون کی خلاف ورزی کر رہا تھا کیونکہ جی ڈی پی کے تناسب سے اس کا قرض 60 فیصد کی حد کے بجائے 72 فیصد سے تجاوز کرگیا تھا جو ایک سنگین مسئلے کا باعث بن سکتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی معیشت خطے کی مجموعی معاشی ترقی پر منفی اثرات مرتب کرے گی، آئی ایم ایف نے خبردار کر دیا
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ مجموعی عوامی قرضوں اور واجبات کے ساتھ پاکستان کا قرض جی ڈی پی کے 72 فیصد سے بڑھ گیا ہے جن میں سے تقریباً 40 فیصد میچورٹی، کمرشل بینکوں، قومی بچت اور مرکزی بینک سے لیا گیا مقامی قرض تھے جس کے پبلک فنانس پر سنگین اثرات مرتب ہوئے کیوں کہ گذشتہ برس ملک کی آمدنی کا 37 فیصد قرض سروسنگ پر چلا گیا تھا اور یہ رواں برس 40 فی صد سے تجاوز کر سکتا ہے کیوں کہ اس عرصہ کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 33 فیصد تک کم ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا، یہ ایک سنگین مسئلہ ہے کیوں کہ ان وجوہ کے باعث ترقیاتی پروگرام میں خلل پیدا ہوا اورسماجی شعبے کی بہتری پر منفی اثرات مرتب ہوئے جب کہ غربت کے خاتمے کی کوششیں بھی متاثر ہوئی ہیں لیکن اصلی چیلنجز داخلی محاذ پر درپیش ہے اور اب بیرونی عوامی قرض اور واجبات جی ڈی پی کا قریباً 33 فی صد ہو چکے ہیں۔