جیسے تم ویسے ہم

جیسے تم ویسے ہم
پرانے وقتوں کی بات ہے، جب اناج اور اشیائے خورد و نوش کی فراوانی نہیں تھی۔ خاص کر پہاڑی علاقوں میں، جہاں قابلِ کاشت رقبہ بہت کم تھا اور محدود پیمانے پر کھیتی باڑی ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان علاقوں میں لوگوں کو پیٹ بھر کر کھانا کبھی کبھار ہی نصیب ہوتا تھا۔اِن حالات میں مولویوں نے ایک ختم متعارف کرایا، اور مشہور کرا دیا کہ یہ ختم پڑھوانے والے کے گھر سے تمام مشکلیں دور ہو جائیں گی۔

اِس ختم میں کُل آٹھ آدمی شامل ہوتے تھے، جبکہ ایک مخصوص مقررہ مقدار میں گوشت اور چاول بطور تبرک پکائے جاتے تھے۔ جو لوگ چاول کے بجائے روٹی پکانا چاہتے تھے، اُن کی آسانی کے لیے آٹے کی مقدار بھی مقرر کر دی گئی تھی۔

ختم کی یہ شرط تھی کہ پکا ہوا سارا کھانا ختم پڑھنے والے آٹھ آدمی ہی کھائیں گے۔ یوں ایک مولوی دو تین بندوں کا کھانا کھا کر ڈیڑھ دو دن کے لیے روٹی کی فکر سے بے نیاز ہو جاتا تھا۔مفت کے لذیذ کھانے کے یہ دور چلتے دیکھ کر جوانوں کے ایک گروہ کا بھی جی للچایا۔ کہاں لسّی یا ساگ چٹنی یا پھر سوکھی روٹی، وہ بھی جو دوسرے یا تیسرے پہر کے بعد نصیب ہوتی، اور کہاں گھی میں تلتلاتا دیسی ککڑ یا گوشت، وہ بھی چند گھنٹے ختم پڑھنے کی معمولی سی محنت کے عوض۔

چنانچہ اِن جوانوں نے بھی داڑھیاں بڑھا کر، مولویوں کا مکمل روپ دھار کر کسی نا کسی طرح ایک جگہ ختم پڑھانے کا ٹھیکہ پکڑ ہی لیا۔ختم پڑھنے کا وقت آ گیا مگر جوانوں کو تو کچھ نہیں آتا جاتا تھا، وہ کیا پڑھاتے۔ اِس صورتحال کو بھانپتے ہوئے اُن کے لیڈر نے تسبیح پکڑ کر ورد شروع کیا: ”ہم کچھ نہیں جانتے، ہم کچھ نہیں جانتے“۔ مقصد اُس کا یہ تھا کہ اُس کے دیگر ساتھی اُس کی طرف نہ دیکھیں بلکہ اگر کسی کو کچھ پڑھائی آتی ہو تو وہ بسم اللہ کرے۔

لیڈر کے ورد کے جواب میں سیکنڈ اِن کمانڈ جوان نے تسبیح اٹھائی اور بآوازِ بلند وظیفہ شروع کیا کہ ”جیسے تُم ویسے ہم۔ جیسے تُم ویسے ہم“۔جوابی ورد سُن کر لیڈر نے پریشان ہونے کے بجائے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے تسبیح پھیر کر اپنے جوانوں کو اشارے سے پیغام دیا کہ گھبرانا نہیں ہے، اور ساتھ ہی ”جیسے چلتی ہے چلائی جاؤ، جیسے چلتی ہے چلائی جاؤ“ کا وظیفہ چلا دیا۔

سات میں سے چھے جوان تو اپنے لیڈر کی تقلید میں ”جیسے چلتی ہے چلائی جاؤ“ کا ورد جپنے لگے جبکہ ایک جوان نے لیڈر کے شروع کردہ وظیفہ کو جاری رکھنے کے بجائے اپنے ضمیر کی آواز پر کان دھرتے ہوئےدیگر ساتھیوں سے ختم پڑھنے کے انداز میں ہی سوال اٹھایا: ”ایسا کب تک چلے گا، ایسا کب تک چلے گا“۔

جونہی یہ آواز لیڈر کے کانوں میں پڑی، اُسے اپنی روٹیاں خطرے میں پڑتی دکھائی دیں۔ اِس سے پہلے کہ اُس کے باقی ساتھی بھی یہی وظیفہ کرنے لگتے، لیڈر نے فوراََ اِس نئے وظیفے کی کاٹ جاری کرتے ہوئے مذکورہ جوان کا منہ بند کر دیا: ”یہ غدار ہے، یہ ہم میں سے نہیں۔ یہ غدار ہے، یہ ہم میں سے نہیں“۔بآوازِ بلند سو بار ”یہ غدار ہے، یہ ہم میں سے نہیں۔ یہ غدار ہے، یہ ہم میں سے نہیں“۔
اوّل و آخر درود شریف ”یہ غدار ہے۔