یہ بھی پڑھیے: آیت اللہ خامنہ ای کی ’اجتہادی غلطی‘ ایران کے لئے عذاب بن گئی۔ پاکستان کے لئے سبق کیا؟
لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگرکورونا کے معاملے میں کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو مجرمین میں سرفہرست چینی حکومت ہے۔ معمول کے دنوں میں سوشل میڈیا پر لاوڈ سپیکر لے کر سائنس کا شبینہ پڑھنے والے کمیونسٹ احباب کو کورونا کے معاملے میں علم کا دامن چھوڑتے دیکھ کر بہت تعجب ہوا ہے۔
کورونا کے بارے میں چینی میڈیا بھی چین کے جرم کو دھونے کے لئے خوب سرگرم ہے۔ اپنی مجرمانہ غفلت کو بچانے کے لئے کورونا کو امریکی سازش کہا جا رہا ہے۔ جب کہ اس دعوے کے حق میں کوئی ٹھوس سائنسی ثبوت فراہم کرنے کے بجائے جہلِ عوام سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ہمارے بعض موقع پرست سائنس دان بھی اسی راگ میں سر ملا رہے ہیں۔ ڈاکٹر عطاالرحمٰن نے ایک ٹی وی شو میں بات کرتے ہوئے یہی الزام دہرایا مگر کوئی سائنسی ثبوت پیش کرنے کے بجائے اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابقہ مندوب کے بیان کو پیش کر دیا۔
اگر یہ وائرس امریکہ یا چین یا کسی اور نے بنایا ہو تو اس کا ارتقائی ماضی اس کے جینیاتی مواد سے پڑھا جا سکتا ہے۔ سادہ سا کام ہے: مریض کی بلغم سے وائرس نکالنا ہے، وائرالوجی کی لیبارٹری میں جا کر کھولنا ہے اور علمی ثبوت سامنے رکھنے ہیں۔ سائنسی ثبوتوں کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انہیں دنیا میں کسی بھی جگہ دیکھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔
مغرب کو چین پر شک تھا کیونکہ یہ وائرس کیپٹلزم کے لئے زیادہ نقصان دہ ہے۔ مغرب میں مریض کے گھر کو باہر سے بند نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی انسان کی تکریم کے خلاف ہتھکنڈے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ متعدد مغربی سائنسدانوں نے وائرس کوکھول کر دیکھا ہے مگر وہ قدرتی ثابت ہوا۔ اگر یہ کسی لیبارٹری کی پیداوار نکلتا تو جنگی جرائم کی عدالت میں چین کے لئے بہت بڑی مصیبت بن سکتا تھا۔ چین اور ایران ہوں یا ڈاکٹر عطاالرحمٰن، جس کو اسے امریکی ہتھیار ثابت کرنا ہے، اسے کھول کر اندر سے ثبوت نکالیں۔
یہ بھی پڑھیے: قم کا ابو جہل: آیت الله عباس تبریزیان
چین کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے جنگلی جانور کھانا بند نہ کیے، جب کہ ساری مہذب دنیا جانور کھانے سے پہلے اس کو ٹیسٹ کرتی ہے۔ اب اس بحران کے ختم ہونے کے بعد چین کے خلاف پابندیاں لگیں گی۔ مغرب اپنی کمپنیوں کی فیکٹریاں بنگلہ دیش، ویت نام یا ہندوستان میں منتقل کرنے کی کوشش کرے گا۔ سرد جنگ کے دوران سرمایہ داری کا مزدور بن کر چین نے جو عزت کمائی تھی، وہ خطرے میں ہے۔ اس ممکنہ ردعمل سے بچنے اور اپنے عوام کی توجہ اپنی نااہلی سے ہٹانے کے لئے چینی حکومت امریکہ کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہے۔
پرانے دور میں جانور کا چیک اپ نہیں ہو سکتا تھا، تو یہی بہتر تھا کہ اس کو گھروں میں رکھیں اور پھر کھائیں۔ ان میں بھی صرف سبزی خور کو کھانا ہی بہتر تھا تاکہ کسی کے گوشت سے جراثیم نہ لایا ہو۔ گوشت خور درندہ تو ہر قسم کے بیمار جانور کھاتا ہے۔ چنانچہ ادیان ابراہیمی میں جانور کا گوشت کھانے کے معاملے پر بہت احتیاط برتی گئی ہے۔
کورونا کا بحران ختم ہونے کے بعد نہ صرف چین کو اس کا معاشی تاوان ادا کرنا ہو گا بلکہ اپنے یہاں جنگلی اور آوارہ جانوروں کے گوشت کے بکنے پر پابندی بھی لگانا ہو گی۔ بیمار جانور کا گوشت کھانے سے جانوروں کے جراثیم کے ارتقا پا کر انسانی جسم سے ہم آہنگی پیدا کرنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
اب چونکہ دنیا کی آبادی بڑھ چکی ہے لہٰذا یہ ارتقائی عمل تیز تر ہو گیا ہے۔ اب دنیا کے پاس ناگہانی وباؤں سے بچنے کے لئے گوشت خوری ترک کرنے یا صرف صحتمند جانور کا گوشت کھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
نوٹ: لکھاری امریکہ کے حقیقی جرائم کا مخالف ہے۔