عمران خان نے سیاست کو بھی کھیل سمجھا تھا اور اسی انداز میں سیاست اور حکومت چلا رہے تھے لیکن وہ بھی کھیل کے ایک بنیادی اصول، سپورٹس مین سپرٹ، کے بغیر۔ کھیل اور سیاست دونوں وہ میدان ہیں جو ٹیم ورک، رواداری و برداشت سکھاتے ہیں کیونکہ ان خصوصیات کی عدم موجودگی میں کھیل اور سیاست دونوں جنگ ہی میں بدل جاتے ہیں۔
بد قسمتی سے عمران خان نے اس کے بغیر ہی یہ دونوں کام کیے۔ میں نے عمران، پی ٹی آئی اور ان پر جو لکھنا تھا وہ 2018 کے انتخابات سے قبل اور بعد میں لکھ چکا ہوں۔ میرا خیال تھا کہ مردہ گھوڑے کو لات مارنے کا کیا فائدہ، لیکن جو کچھ انہوں نے اور ان کے حواریوں نے 3 اپریل کو کر دیا وہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اکتوبر 2011 سے تبدیلی کے نام پر جس فتنے کا آغاز کرایا گیا، جبکہ اگست 2014 سے سیاسی اپوزیشن کے خلاف اس میں جو زہریلی ہوا بھری گئی تھی ، وہ اب پورے نظام ریاست و سیاست میں زہر گھولنے لگی ہے۔
خاکم بدہن لیکن اگر بروقت اسکا تدارک نہ کیا گیا تو یہ سیاسی جنونیت اس مذہبی جنونیت سے کم تباہ کن نہیں ہوگی جو 80 کی دہائی سے پروان چڑھنا شروع ہوئی تھی، اور اب چند گھنٹوں کے نوٹس پر ظاہری ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی صلاحیت حاصل کر چکی ہے۔ یہاں ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا مذہبی جنونیت کے متوازی مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے نام نہاد تعلیم یافتہ افراد پرمشتمل سیاسی جنونی سوچ کی ضرورت کو اس لئے محسوس کیا گیا تا کہ 90 کے دہائی کی گالم گلوچ والی سیاست اس سے ذیادہ غلیظ اور زہرالودہ شکل میں واپس لوٹ آئے تاکہ وہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنماؤں کی سیاسی کردار کشی کریں جو نادیدہ قوتوں کو سیاسی مقاصد کیلئے اپنے کندھے آسان شرائط پر دینے کیلے مزید تیار نہیں تھے۔
میثاق جمہوریت کے بعد جو قومی سیاسی منظر نامہ پروان چڑھ رہا تھا اس کو فوری طور پر دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے جکڑ لیا ۔ اس اثنا میں دو اہم کام سر انجام دیے گئے، ایک عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی کا ضروری انقلابی رنگ روغن اور دوسرا اعلی عدلیہ کی ضروری ریسٹرکچرینگ اوراس کو مقبولیت کے بے لگام گھوڑے پر سوار کرانا۔ اس کے بعد پھر کیا تھا بس ہر رات تبدیلی اور ہر دن انقلاب۔
یہ حقیقت ہے کہ طاقت انسان کوبہت جلد بے نقاب کردیتی ہے لیکن عمران اقتدار میں آنے سے پہلے محض طاقتوروں کے آشیرباد سے کنٹینر پر کھڑے ہوکر وہ حرکتیں اور باتیں کرتا تھا جوایک سیاسی رہنما تو دور ایک نارمل انسان بھی نہیں کرسکتا۔
انداز بیان اور طرز مخاطب ایک انسان کی شخصیت کا عکاسی کرتا ہے اس لئے ان کی شخصیت کے یہ عوامل ان کو عدم تحفظ ، سماجی پیچیدگیوں کا شکار، خبط عظمت اور خود پسندی کی بیماری میں مبتلا فرد کے طور پر پیش کر رہے ہیں، اور ایسے عوامل رکھنے والا انسان اخلاقی و سماجی قدروں، رواداری، برداشت اور رکھ رکھاؤ سے عاری ہوتا ہے ۔ وہ ڈراتا ہے اور ڈرتا ہے، بس۔
شروع ہی سے، سوائے سپورٹس مین سپرٹ جیسی صفت کے، عمران خان سیاست میں زیادہ تر کرکٹ کہ ہر وہ استعارات ، کلمات اور الفاظ استعمال کرتا ہے جس کی خاصیت حریفانہ اور معاندانہ ہوتی ہے، جیسا کہ یارکر کروںگا، سوینگ ، سپینر ، اور وکٹیں اڑادو وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن کھیل میں یہ سب کچھ میدان تک محدود ہوتے ہیں، ہارنے والے جیتنے والوں کو دشمن نہیں اورجتنے والے ہارنے والوں کو حقیر نہیں سمجھتے۔
آگر دیکھا جائے تو جب سے حکومت میں آیا تھا شروع دن سے یہ رٹ لگاکے رکھتا تھا کہ چھوڑونگا نہیں، پکڑو، دھکڑو، چھترول کرو ، لتر لگاؤ۔ وہ یہ حقیقت سمجھنے سے قاصر تھا کہ کھیل کا اختتام جتنے پرہوتا ہے اور سیاست میں اصل امتحان جیتنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور کچھ کر کے ڈلیور کرنا ہوتا ہے۔
خیر سے یہ فکر تو وہ سیاستدان کرتے ہیں جو واقع اپنی محنت، سیاسی جدوجہد ، سوج بوجھ اور تدبر کے نیتجے میں اقتدار حاصل کریں۔ لیکن جس کو کوئی اور کندھوں پر بیٹھا کر کرسی تک پہنچائے ان کوکیا فکر فاقہ، کچھ کرنے کا۔ اب یہ کوئی راز نہیں کہ اس کا عملی اور سیاسی بیانیہ اتنا متضاد ہے جتنا آگ اور پانی۔ جس انسان کی پوری زندگی بے راہ روی، عیاشی اور نفسی خواہشات کے پھیچے دوڑ سے عبارت ہو، جس کو اپنے نفس اور زبان دونوں پر قابو نہ ہو، اس کو پروپیگنڈا کے زور پر ایک مسیحا ، نجات دہندہ اور عالم اسلام کے لیڈر کے طور پر پیش کیا گیا۔ ان کو کچھ کرنے کا کیا ضرورت تھی کیونکہ میڈیا پر سب اچھا چل رہاتھا اور پاکستان کو اب بھی دنیا کا سستے ترین ملکوں میں شمار کیا جاتا تھا۔
یہ بھی انقلاب سے کم نہیں تھا کہ اکتوبر 2011 سے پہلے جس کی پریس ریلیز مشکل سے اخبار کے سٹی پیج پر لگتی تھی (وہ بھی کسی خاتون صحافی کی وجہ سے) لیکن 2011 کے بعد میڈیا کو ہر طرف ہر وقت صرف اور صرف عمران اور اس کی تبدیلی نظر آنے لگی ۔ اور یہ کیسے ممکن ہوا کہ دن کی روشنی میں گدھے کو گھوڑا دیکھائے جائے ، بس، 'مرتا کیا نہ کر تا' والی صورتحال تھی، بعض میڈیا ہاؤسز کیلئے یہ نام اور دام کمانے کا سنہرا موقع بھی تھا۔
سلیکٹرز کا شروع دن سے یہ نظریہ رہا ہے کہ ہمیں صرف کھوپڑی چاہئے اس میں دماغ نہیں چاہیئے کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ بہترین دماغ ان کے پاس ہے، صرف عوامی لیبل والی کھوپڑیوں کے ضرورت ہے۔ لیکن اس دفعہ شاید سلیکٹرز بھول گئے کہ ان کے پاس دماغ تو نہیں ہے لیکن زبان دراز اتنا کہ جس پر خود ان کا بھی قابو نہیں ہے۔ پتہ نہیں ان سے یہ غلطی کیسے ہوگئی یا ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا، یا وہ سمجھتے تھے کہ شاہ محمود اور بابر اعوان وغیرہ اس پر نظر رکھیں گے۔
اس سارے کھیل میں اسٹیبلیشمنٹ کو وقتی کامیابی ضرور ملی لیکن بہت بڑی قیمت پر جس کیلئے سیاسی و معاشی استحکام کو داؤ پر لگایا ، آئین اور نظام انصاف کو پاؤں تلے روندا ، بین القوامی سطح پر بدنامی اور سفارتی تنہائی کا طوق گلے میں ڈالنا شامل ہیں۔
اب جو کچھ 3 اپریل اور اس سے پہلے چند دنوں میں کیا گیا اس نے نہ صرف ریاست کو آئینی بحران میں دھنسا دیا بلکہ ناقابل تلافی سفارتی نقصان بھی پہنچایا ۔ اس کے بعد کون پاکستان اور اس کی سفارت کاری پر اعتبار اور اعتماد کریگا۔
آئین کا تو خیرسے مملکت خداد میں کوئی مسئلہ نہیں رہا ، اپنی تشکیل کے بعد یہ ریاست 9 سال بے آئین تھی اور پھر بھی چلائی جارہی تھی ، کیونکہ یہاں اقتدار اور اختیارات کا فیصلہ آئین نہیں بندوق کرتا ہے ۔ چونکہ طاقت کا اصل سر چشمہ سلامت ہے تو آئین اگر چند دن نہ رہے تو کونسا آسمان ٹوٹ کر گرجائے گا۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ عمران کی ذہنی اختراع ہے یا اب بھی اس کہ پیٹھ پر کوئی طاقتور ہاتھ ہے؟ اگر یہ سب اس نے از خود کیا تو اب تک شیخ رشید، فواد چوھدری اور بابر اعوان جیسے کردار اس کے گرد کیوں اور کیسے بیٹھے ہیں؟ اس ضمن میں 3 اپریل کے اقدام پر عدالت عظمی کا فیصلہ کچھ نہ کچھ روشنی ڈال دیگا کہ کون کتنا نیوٹرل ہے