ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دور دراز ایک سرزمین پر بڑے بڑے درختوں کا ایک گھنا جنگل تھا۔ یہ درخت جنگل کا نظم و ضبط برقرار رکھتے اور اس کی بیرونی خطرات سے حفاظت کرتے۔ ہر چند سالوں کے بعد سب سے بزرگ درخت کو لیکن واپس زمین کا حصہ بن جانا ہوتا تھا۔ اور قیادت اس درخت کو سونپ دی جاتی جو اب عمر میں سب سے بڑا ہوتا۔
جنگل میں بندروں کے بھی مختلف قبیلے آباد تھے۔ یہ بے کل مخلوق درختوں کی گنجلک شاخوں کے درمیان ایک افراتفری کے ماحول میں رہتی۔ جب بھی یہ انتشار قابو سے باہر ہونے لگتا، تو بڑے درخت مداخلت کرتے اور بندروں کو قاعدے میں لاتے۔ کبھی بندر خود بھی درختوں سے یہ نظم و ضبط قائم کرنے کی درخواست کرتے۔ اور کبھی بزرگ درخت خود فیصلہ کر دیتا کہ درختوں کو جنگل میں نظم قائم کرنا ہو گا۔
جنگل میں ایک تاریک اور چالاک فنگس کا بھی بسیرا تھا۔ یہ فنگس جنگل سے بھی پرانا تھا اور اسے وہ وقت بھی یاد تھا جب کچھ ہی عرصہ پہلے یہاں کوئی جنگل نہیں تھا اور وہ خود ہی جگہ جگہ کھمبیاں اگا لیتا تھا۔ اسے وہ وقت بھی یاد تھا کہ جب بڑے بڑے درختوں کی جگہ محض مڑی تڑی لکڑیاں موجود تھیں جن کو پوری طرح اس کی اپنی ہی کائی نے لپیٹ رکھا تھا۔ اسے یاد تھا جب تمام سرزمین پر اس کی حاکمیت قائم تھی اور وہی بندروں کے صحیح غلط کا فیصلہ کیا کرتا تھا۔ جب وہ خود ہی 'نظام' تھا۔
ابھی درختوں کے لائے اس نظم و ضبط کو چند ہی برس گزرے تھے کہ جنگل میں ایک علیحدہ ہی قسم کا بندر نمودار ہوا۔ ایک شاخ سے دوسری اور دوسری سے تیسری کے بیچ جھولنے میں اسے خاص ملکہ حاصل تھا۔ فنگس نے اس بندر کو دیکھا تو فیصلہ کیا کہ اب تبدیلی کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
فنگس نے اسے اپنی کھمبیوں کا تاج پہنایا اور اسے شہزادے کا خطاب دے دیا۔ فنگس نے بندر کو سمجھایا کہ صرف وہی حق پر ہے اور باقی تمام بندر غلط۔ فنگس نے اسے پٹی پڑھائی کہ نظام اس کے تابع ہونا چاہیے، شہزادے کے، کسی درخت کے نہیں۔ بندر نے کھمبیوں کا تاج سر پر فخر سے سجا لیا۔ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ تاج پہن کر دراصل اس نے فنگس کو اپنے جسم کے اندر داخل ہو کر پھلنے پھولنے کا راستہ دکھا دیا ہے۔
فنگس نے بندر شہزادے کو اس پر بھی قائل کر لیا کہ وہ اس کے کچھ خلیے دیگر بزرگ درختوں کے دلوں میں بھی پیوست کر دے۔ چنانچہ آن کی آن میں فنگس درختوں کے بیچوں بیچ پھیلتا چلا گیا اور تمام درخت اس سے بیمار پڑ گئے۔ ان کے دلوں میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کی خواہش دم توڑنے لگی، صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی حس بھی کمزور پڑتی گئی۔ وہ ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ انہوں نے بندروں کو آگ جلانا بھی سکھا دیا اور ان سے دوسرے درختوں پر حملے کروانے لگے۔
یہ بھی پڑھیں؛ جسٹس بندیال کا دور جو بے دھیانی میں کیے گئے انصاف سے عبارت ہے
اس کے بعد چند بوڑھے درختوں نے ایک بہت بزرگ، بڑے شاندار ماضی والے درخت پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان درختوں نے بندر شہزادے سے بات کی جو ان کے لئے فنگس لے کر آیا اور عظیم درخت کو گرانے کے منصوبے میں ان کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی۔ بڑی زوروں کی لڑائی ہوئی مگر کسی طور عظیم درخت یہ لڑائی جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس لڑائی میں بہت سے بندر اس کی شاخوں اور جڑوں کو محفوظ رکھنے پر مستعد تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ایک دن یہ عظیم درخت جنگل کا سب سے بزرگ درخت بھی بن گیا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اس بزرگ درخت کو لیکن اس لڑائی میں بہت سے گھاؤ آئے تھے اور وہ جانتا تھا کہ اس کے پاس بھی زیادہ وقت نہیں کہ نظم و ضبط کو بحال کر سکے۔ تب فنگس اس کے پاس آیا اور اپنے کیے پر مغموم ہوا۔ فنگس نے وعدہ کیا کہ اب سے ہمیشہ وہ اپنی اوقات میں رہے گا۔ اس نے بزرگ درخت کی شان میں خوب قصیدہ گوئی کی۔ اپنی پرانی غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لئے اس نے اپنے بعض حصے خود ہی کاٹے اور بھینٹ کے طور پر پیش کرتے ہوئے عظیم درخت کے زخموں کو ان حصوں سے بھر دیا۔ بزرگ درخت کو اس سے بڑی طاقت ملی۔ اس کے بعد بزرگ درخت نے اپنے تئیں جنگل میں 'نظام' بحال کرنے کی کوشش شروع کر دی۔
اس مہم کا آغاز بندر شہزادے سے ہوا کیونکہ بزرگ درخت کو یقین تھا کہ دیگر درختوں میں پھیلنے والی بیماری اسی کی دین تھی۔ بزرگ درخت نے بہت سے بندروں کو دیس نکالا دے دیا اور باقی رہ جانے والوں میں سے اکثر کو سزا دینے کا حکم سنایا۔ اس تمام عرصے کے دوران فنگس بزرگ درخت کے ساتھ ہم کلام رہا اور اس کے ہر اقدام سے اتفاق کرتا رہا۔ فنگس نے اپنی غلطی پر پچھتاتے ہوئے بندر شہزادے کے سر سے تاج اتار لیا اور اسے عظیم درخت کی جڑوں میں رکھ دیا۔
عظیم درخت کو احساس ہوا کہ وہ بندر جنہوں نے عظیم جنگ میں اس کی حفاظت کی تھی ان میں اتنی صلاحیت نہیں کہ اپنا نیا شہزادہ چُن سکیں۔ فنگس نے اس سے بات کی اور اتفاق کیا۔
پھر عظیم درخت نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ اس کی پرستش کی جانی چاہیے۔ فنگس نے اتفاق کیا۔ اس نے تاج کو عظیم درخت کی شاخوں سے بھی اونچا اٹھا لیا اور ہر اس بندر کو زہریلی کھمبیاں بھجوانے لگا جو عظیم درخت کے احکام پر شبہ کرتا۔
اس کے بعد عظیم درخت نے فیصلہ کیا کہ جن درختوں نے اس کے خلاف جنگ چھیڑی تھی انہیں سزا ملنی چاہیے۔ فنگس نے اس سے بات کی اور اتفاق کیا۔
یہ بھی پڑھیں؛ اعجاز الاحسن، جس نے جنگ کے آغاز سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیے
پھر بزرگ درخت نے محسوس کیا کہ کچھ چھوٹے درختوں میں بھی پرانی روح موجود تھی، ان کو بھی سزا ملنی چاہیے کہ انہوں نے اسے بتانے کی جرات کی تھی کہ جنگل میں کس قسم کا نظام ہونا چاہیے۔ فنگس نے اس سے بات کی اور اتفاق کیا۔
پھر، عظیم درخت نے محسوس کیا کہ اس کے اپنے بعض اعضا بھی غیر ضروری ہیں۔ فنگس نے اس سے بات کی اور اتفاق کیا۔
جب عظیم درخت کے واپس زمین کی طرف لوٹ جانے کا وقت آیا تو اس نے محسوس کیا کہ نظم و ضبط برقرار رکھنے کی ذمہ داری سونپنے کے لئے جنگل میں کوئی بڑا درخت باقی نہیں بچا۔ اس کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے بوٹے رہ گئے تھے، جن کو خود اس کے ہی زخموں سے نکلنے والا فنگس اندر سے کھوکھلا کر چکا تھا۔ تب عظیم درخت نے اپنے وجود پر نگاہ ڈالی تو اسے محض ایک شکستہ سا پرانا تنا نظر آیا اور اسے بھی فنگس سے اگی کھمبیوں نے چاروں طرف سے ڈھانپ رکھا تھا۔ فنگس اب اس سے بات نہیں کرتا تھا، مگر اتفاق کرتا تھا۔
**
معروف قانون دان اور تجزیہ کار عبدالمعز جعفری کا یہ مضمون The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا گیا ہے۔