خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
ہم بھی عجیب لوگ ہیں غلطی خود کرتے ہیں اور ذمہ دار کسی دوسرے کو ٹہرا دیتے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ سوچنے کی رحمت نہیں کی کہ ایک مہذب مہاشرے کی تشکیل میں ریاست کے ہر شہری کا برابر حصہ ہوتا ہے۔ آئیے ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ ایک بہتر معاشرے کی تشکیل میں ہم نے خود کتنا حصہ ڈالا ہے۔

ہم رونا روتے ہیں کہ یہاں کوئی بھی چیز خالص نہیں ملتی تو کیا اسکی ذمہ دار بھی حکومت ہے۔ اشیاء خور و نوش میں ملاوٹ کے ذمہ دار ہم ہیں مورد الزام حکومت ہوتی ہے، بجلی ہم کنڈا لگا کر استعمال کرتے ہیں اور لوڈ شیڈنگ کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دیتے ہیں۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ہم کرتے ہیں اور پولیس پر رشوت الزام لگا دیتے ہیں۔ منہ مانگے داموں چیزیں ہم خریدتے ہیں اور مہنگائی حکومت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ بچوں کو مہنگے اسکول میں داخل کراتے ہیں پھر فیسوں کا رونا لیکر عدالتوں میں چلے جاتے ہیں۔

ہم زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا چاہتے ہیں لیکن محنت کرنا پسند نہیں کرتے۔ دراصل اپنی ذمہ داری دوسرے پر ڈالنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔
افراد کا ہی رونا نہیں ہے بلکہ ہمارے اداروں میں بھی کیونکہ اسی معاشرے کے لوگ بیٹھے ہیں لحاظہ وہاں بھی یہی حال ہے۔ ہمارا ہر ادارہ اپنی ذمہ داری دوسرے ادارے پر ڈالتا ہے۔ پرویز مشرف کا نام عدالت کے حکم پر ECL سے نکالا گیا لیکن الزام حکومت وقت پر آیا۔ اسامہ بن لادن جس جگہ رہ رہا تھا اس علاقے میں پرندہ بھی 'مہربانوں' کی اجازت کے بغیر پر نہیں مار سکتا لیکن الزام اس وقت کی حکومت پر آیا۔ پاکستاان میں آنے والے ہر مارشل لاء کو سند جواز ہماری عدالت عظمیٰ نے فراہم کی لیکن الزام سیاستدانوں پر آیا۔

بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں جنگل کا قانون لاگو ہے یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ جو جتنا زیادہ زور آور ہے اتنا ہی قانون کی پکڑ سے دور ہے۔

زیادہ دور کی بات نہیں حال ہی میں خصوصی عدالت کے ذریعہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو دی گئی سزا پر ان کے ادارے کا ردعمل دیکھ لیں۔ کیا اس ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم کو دی گئی پھانسی کی سزا پر کسی ادارے کا اتنا سخت ردعمل آیا تھا؟

یہ طاقت کا قانون ہی ہے جو منتخب حکومتوں کا دھڑن تختہ کر دیتا ہے اور پھر نام نہاد انتخابات کے ذریعہ عوام پر اپنی کٹھ پتلیاں مسلط کر دیتا ہے۔ ملک کیلئے اپنی 'خدمات' گنواتے زبان نہیں تھکتی لیکن ملک میں تباہی کا ذمہ دار ہمیشہ حکومت کو ٹہرایا جاتا ہے۔

ان کٹھ پتلیوں کی کیا اوقات ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ کل ہی امریکی وزیر خارجہ نے عراق میں بمباری کے ذریعہ القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمان کی ہلاکت پر افغانستان کے صدر اور ہمارے آرمی چیف کو اعتماد میں لیا۔ کیا یہ ہمارے لئے شرم کا مقام نہیں کہ افغانستان جیسے ملک کا صدر بھی ہمارے وزیر اعظم سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے؟

اب یہ جنگل کا قانون نہیں تو اور کیا ہے۔ امریکی ہماری اس حکومت کی اوقات کو جانتے ہیں اسی لئے نہ انہوں نے ہمارے وزیر خارجہ سے بات کرنا مناسب سمجھی اور نہ ہی وزیر اعظم کو اس قابل سمجھا۔ یہ ان اشخاص کی تضحیک نہیں بلکہ مملکت خداداد کی تضحیک ہے۔

ستر سال گزر گئے مگر ہمیں آج بھی احساس نہیں ہو پا رہا کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن ہم ایک گرداب سے ہی نہیں نکل پا رہے۔ دنیا میں پاکستان کا مذاق بنا دیا گیا ہے اور جو یہ سب کر رہے ہیں وہ خوش ہیں کہ سارے پتے ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ رب کائنات انسان کو غلطی درست کرنے کا موقع ضرور دیتا ہے لیکن اگر اس سے فائدہ نہ اٹھایا جائے تو توبہ کے دروازے بھی بند ہو جاتے ہیں۔
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔