پشاور سانحہ خطرے کی گھنٹی، واضح ہو گیا دہشتگرد کمزور نہیں ہوئے

پشاور سانحہ خطرے کی گھنٹی، واضح ہو گیا دہشتگرد کمزور نہیں ہوئے
جب عملی صحافت میں تھے تو روزانہ اخبارات میں سرخیاں اس قسم کی ہی ہوتی تھی جو آج پشاور کے اخبارات کی ہیں۔ وہ ایک مشکل ترین دور تھا۔ دوست جو اب بھی عملی صحافت میں ہیں، وہ جب اُس وقت کو یاد کرتے ہیں تو انہیں دھماکے، دھماکے کی طرح نہیں لگتے، کیونکہ 2009 سے 2013 تک کا پشاور پر بہت کھٹن وقت تھا۔

ہر جمعہ کسی نہ کسی مسجد، گلی، پولیس چوکی، بازار، امام بارگاہ، چرچ، بینک اور تعلیمی ادارے کو نشانہ بنایا جاتا۔  صحافی ایک دھماکے کی فالو اپ سٹوری سے فارغ ابھی نہیں ہوتے کہ دوسرا دھماکا ہو جاتا۔ ہمارے دوست پرانے دھماکے کے زخمیوں اور اُس میں شہید ہونے والے افراد اور اُن کے اہل خانہ کو بھول جاتے۔ حکومت شہدا پیکیج کا اعلان کرکے بری الزمہ ہو جاتی اور صحافی اپنی ڈیوٹی نبھانے لگتے۔

کل کے دھماکے کے بعد ایک صحافی دوست سے بات ہوئی، وہ پہلے کی طرح اپ سیٹ تھا اور کہہ رہا تھا کہ دھماکے کی نوعیت اسی طرح تھی جیسی ماضی میں ہم دیکھتے آئے ہیں۔ جب اس وقت دھماکے کی کوریج کرتے تو پریشان ہو جاتے تھے۔ پھر جب آپریشن ہوئے۔ حالات سنبھلے اور یقین ہو چلا کہ اب پشاور پھر لہو لہو نہیں ہوگا۔ اب امن اچکا ہے۔

دہشت گردوں نے اس شہر میں داخلے کے تمام راستے دیکھے ہیں۔ آرمی پبلک سکول کا واقعہ بھی یہی ہوا۔ ایگری کلچر انسٹی ٹیوٹ کا واقعہ بھی یہی رونما ہوا۔ مینا بازار، قصہ خوانی بازار، آرمی سینٹر، پشاور پریس کلب سمیت چرچ اور پی سی کا بڑا دھماکا بھی اسی شہر نے دیکھا۔

دوست کا کہنا تھا کہ دھماکوں کے ساتھ تو ہم عادی ہو گئے ہیں البتہ ہمارے نئے ساتھی پریشانی کا شکار تھے کیونکہ انہوں نے اتنے بڑے دھماکے نہیں دیکھے تھے۔

ہمارے پاس تو بہتیرے مثالیں ہیں۔ مگر مجھے ایک خوف لاحق ہو گیا کہ کیا یہ ٹوٹی کمر والے دوبارہ تو میدان میں نہیں آرہے کیونکہ گذشتہ کئی مہینوں سے تواتر سے دہشت گردانہ کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ کل جس طریقے کے ساتھ حملہ کیا گیا اس سے یہ بات سامنے آگئی ہے کہ آنے والے دن مزید خطرناک ہو سکتے ہیں۔

پشاور کے باسی لاشیں اٹھانے کے عادی ہیں۔ انہیں کوئی زیر نہیں کر سکتا۔ مگر افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ اُن کے سرکردہ لیڈران سے بات چیت اچھے طریقے سے کی جاتی اور یہ عمل شروع بھی ہو چکا تھا مگر پھر کیا ہوا کیوں کر وہ مذاکرات ناکام ہوئے؟ اس بارے میں کوئی علم نہیں ہو سکا۔

اب دوبارہ اگر ان کی واپسی خطرے کی علامت ہے۔ عمران خان کی حکومت پہلے ہی سے مہنگائی، عدم استحکام، میرٹ کے ستیاناس جیسے مسائل سے نبرد آزما تھی۔ ساتھ میں روس، یوکرائن تنازعہ، انڈیا کے ساتھ کشیدہ تعلقات پھر افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ بات چیت اور اب اگر دہشت گردی کی یہ لہر بھی شامل ہوگئی تو یہ حکومت کے لئے ایک کھٹن سفر ہے کیونکہ تحریک عدم اعتماد کی بازگشت بھی تیز ہوگئی ہے۔

تو آنے والا منظر نامہ موجودہ حکومت کے لئے ایک خطرے کا باعث ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو حکومت کو سیکیورٹی کے لئے ایک دفعہ پھر سے چوکنا رہنا ہوگا۔ کیونکہ پشاور جہاں سیکورٹی عموماً سخت ہوتی ہے۔ وہاں اگر اتنی آسانی کے ساتھ اتنے بڑے دھماکے کی منصوبہ بندی ہو سکتی ہے تو باقی شہروں میں تو سیکیورٹی اتنی سخت بھی نہیں ہوتی نہ ہی وہاں مساجد اور امام بارگاہوں پر پولیس کی ڈیوٹیاں لگتی ہیں۔

اب پھر سے جمعہ کے لئے ازسرنو منصوبہ بندی کرنے کی اشد ضرورت ہے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو بھی ساتھ ملانا ہوگا۔ کل وزیراعلی کے زیر صدارت اجلاس میں اہم فیصلے کئے گئے۔ اپوزیشن والے بھی دھماکے کی جگہ پہنچ گئے۔ انہوں نے بھی اس کی بھرپوز مذمت کی۔

نگہت اورکزئی کا بیان بھی سامنے ہے جس میں وہ للکار کر کہتی ہے کہ مجھے مارو مگر ہماری عوام کی جان بخش دو۔ اب دوبارہ سب کو مل کر اس جنگ کے خاتمے تک مل کر کام کرنا ہوگا۔ ورنہ ہم جسے کمزور سمجھ رہے تھے وہ اتنے کمزور نہیں ہیں۔ خدا نہ کرے کہ وہی وقت دوبارہ پشاور پر آئے جب ہر جمعہ دھماکے سے خالی نہیں ہوتا تھا ۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔