اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے گرفتار سربراہ شیخ رشید کے خلاف کراچی اور حب میں درج مقدمات پر کارروائی سے روک دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے شیخ رشید کی جانب سے کراچی منتقلی روکنے اور پولیس کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔ شیخ رشید کی جانب سے وکلا انتظار حسین پنجوتہ اور نعیم حیدر پنجوتہ عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے کراچی کے علاقے موچکو اور بلوچستان کے علاقے حب میں شیخ رشیدکے خلاف درج مقدمات پرکارروائی سے روکتے ہوئے بار کونسلز، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹسز جاری کر دیے۔
سماعت کے دوران شیخ رشید کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ عدالت نے تھانہ آبپارہ کے طلبی کے سمن کے ضمن میں مزید کارروائی سے روکا تھا۔پولیس نے اسی درخواست پر مقدمے کا اندراج کیا اور گرفتاری کی۔ایک اور ایف آئی آر موچکو کراچی میں درج کی گئی جب شیخ رشید پولیس کی حراست میں تھے۔
جسٹس طارق محمودجہانگیری کا کہنا تھا کہ بیان دینےکی جگہ پولی کلینک اسپتال ہے تو کراچی میں مقدمہ کیسےدرج ہوگیا؟ ایک ہی وقوعہ پر مختلف شہروں میں ایف آئی آر کیسے ہوسکتی ہیں ؟
وکیل نے بتایا کہ تیسرا مقدمہ مری میں درج کیا گیا ہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیئے کہ ایک ہی وقوعہ پر مختلف شہروں میں ایف آئی آر کیسے درج ہوسکتی ہیں؟ قانون کہتا ہے جب ایک مقدمے میں گرفتاری ہوتو باقی میں بھی ہوجاتی ہے۔
وکیل نے عدالت میں کہا کہ شیخ رشید کو نامعلوم جگہ پر کرسی سے باندھ کر 6 گھنٹے تک رکھا گیا۔ اس دوران سیاسی سوالات کیے گئے اور تشدد بھی کیا گیا۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ مجھے نہیں سمجھ آرہی کہ یہ سلسلہ رُکے گا کہاں۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ آپ نے سیکرٹری انفارمیشن اور ایم ڈی پی ٹی وی کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کیے تھے۔ اب وہی کچھ آپ کے خلاف ہورہا ہے۔ ذرا سوچیں اگر خاتون سیکرٹری انفارمیشن کو بڈھ بیر پولیس گرفتار کرکے لے جاتی تو کیا ہوتا ؟
عدالت نے موچکو کراچی اور حب میں شیخ رشید کے خلاف درج مقدمات پر پولیس کو کارروائی سے روک دیا۔ ہائی کورٹ نے بار کونسلز ، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 9 فروری تک ملتوی کردی۔