شہباز شریف قانونی محاذ پر اس وقت کہاں کھڑے ہیں؟

شہباز شریف قانونی محاذ پر اس وقت کہاں کھڑے ہیں؟
حال ہی میں خبر سامنے آئی ہے کہ نیب نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں۔ نیب نے یہ اقدام شہباز شریف کے زیر تحقیقات کیسز کی کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے اٹھایا ہے۔ شہباز شریف سے متعدد کرپشن کیسز میں تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ ہم ان تمام کیسز پر تفصیلی بات کریں گے۔

https://www.youtube.com/watch?v=e8e5rLypMXM

تازہ ترین معلومات یہ ہیں کہ نیب نے شہباز شریف کے خلاف زیر تحقیقات کیسز میں ان کی 13 جائیدادیں منجمد کر دی ہیں۔ ان جائیدادوں میں شہباز شریف کے گھروں سمیت مختلف انڈسٹریز کے حصص شامل ہیں۔ جن انڈسٹریز کے حصص منجمد کیے گئے ہیں ان میں چنیوٹ انرجی لمیٹڈ، رمضان انرجی، شریف ڈیری، کرسٹل پلاسٹک انڈسٹری، العریبیہ، شریف ملک پروڈکٹس، شریف فیڈ ملز، رمضان شوگر ملز اور شریف پولٹری شامل ہیں۔

شہباز شریف کے خلاف کیسز کا آغاز 2018 میں ہوا۔ لیکن، اس سے قبل ہی شریف خاندان کی مشکلات کا آغاز ہو چکا تھا۔ پانامہ لیکس شریف خاندان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئیں۔ اسے شریف خاندان کی بدقسمتی سمجھیں یا پاکستان کی خوش قسمتی کہ پانامہ لیکس میں 2 لاکھ 14 ہزار افراد، کمپنیوں، ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کی تفصیلات کیساتھ شریف خاندان کے اثاثوں کی فہرست بھی شامل تھی۔

3 اپریل 2016 کو پانامہ پیپرز کے پہلے حملے نے ہی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے لئے مشکلات کھڑی کر دیں اور ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جو اب بھی ہو رہا ہے۔ پانامہ لیکس کے بعد سے اب تک شریف خاندان مشکلات کا شکار ہے۔ 3 اپریل 2016 کو شریف خاندان کے گھر جنم لینے والی مصیبت اب ٹلتی نظر آ رہی ہے لیکن، شاید اس کے سائیڈ ایفکٹس دیرپا ہوں گے۔ پانامہ لیکس کے بعد مسلم لیگ ن کی سیاسی پوزیشن کمزور ہوئی اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت لوٹی دولت واپس لانے اور احتساب کا نعرہ لیے اقتدار میں آئی۔ احتساب کے اس نعرے کا نشانہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی بنے جس کے بعد ان کے خلاف نیب میں متعدد مقدمات کا آغاز ہوا۔ انہی مقدمات کے پیش نظر شہباز شریف کے تمام اثاثے بھی منجمد کر دیے گئے ہیں جبکہ وہ اس وقت اپنے بیمار بھائی میاں محمد نوازشریف کے علاج کے لئے لندن میں موجود ہیں۔

مقدمات سے جیل اور پھر لندن تک کے اس سفر میں کئی پڑاؤ آئے اور کئی ابھی باقی ہیں لیکن ایک سوال جو اب بھی عوام کے ذہنوں میں ہے، وہ یہی ہے کہ شہباز شریف قانونی محاذ پر اس وقت کہاں کھڑے ہیں؟ اور ان کے ساتھ مستقبل میں کیا ہو سکتا ہے؟ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خلاف مقدمات کا آغاز ہوا اور تقریباَ ہر وہ بڑا منصوبہ جو انہوں نے اپنے دور اقتدار میں شروع کیا، اس میں مقدمات قائم کیے گئے جن میں کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے۔

چند بڑے کرپشن کے مقدمات جن میں اس وقت شہباز شریف کے خلاف نیب میں تحقیقات جاری ہیں، ان میں 56 کمپنیز کا کیس سرفہرست ہے جس میں تقریباً ہر کمپنی سے متعلق انکوائریاں کی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل، آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس، رمضان شوگر ملز کیس اور دیگر کیسز جو کرپشن سے ہٹ کر ہیں ان میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس اور سبزہ زار کیس شامل ہیں۔

56 کمپنیز کیس

ان تمام مقدمات میں شہباز شریف پر کیا الزامات ہیں؟ تو یہ بھی جان لیتے ہیں۔ سب سے پہلے 56 کمپنیز کیس کی بات کریں تو اس میں سابق وزیر اعلیٰ کے خلاف غیر قانونی پبلک پرائیویٹ کمپنیوں میں مبینہ کرپشن اور پیپرا رولز کی خلاف ورزی پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ من پسند بیورو کریٹس کو زیادہ تنخواہوں پر نوکریاں دینے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔ اس کیس میں ڈی جی نیب کروڑوں روپے کی ریکوری کا دعویٰ بھی کر چکے ہیں۔

آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل

56 کمپنیوں میں کرپشن الزامات کے بعد آتی ہے آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل کی باری، نیب نے شہباز شریف کو پہلی مرتبہ 5 اکتوبر 2018 کو آشیانہ ہاؤسنگ سیکنڈل میں ہی گرفتار کیا تھا۔ جس میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خلاف جو چارج شیٹ تیار کی گئی وہ کچھ یوں ہے کہ:

شہباز شریف نے پنجاب لینڈ ڈویلپمینٹ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے اختیار حاصل کیے اور پھر پی ایل ڈی سی کو غیر قانونی طور پر کہا کہ آشیانہ منصوبہ ایل ڈی اے کو دیا جائے۔ اس طرح شہباز شریف نے غیر قانونی طور پر پراجیکٹ ایل ڈی اے کو ٹرانسفر کیا۔ انہوں نے مبینہ طور پر من پسند کمپنی کو غیر قانونی منافع دینے کے لیے ٹھیکہ منسوخ کروایا اور بطور وزیراعلی اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔

56 کمپنیوں کی طرح اس کیس میں بھی شہباز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں پیپرا قوانین کی خلاف ورزی کی اور شہباز شریف کے اس اقدام سے قومی خزانے کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کیس میں حال ہی میں نیب نے شہباز شریف کی جائیدادوں کو منجمد کیا ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=e8e5rLypMXM

آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کا کیس

شہباز شریف پر آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کا کیس بھی ہے، جیسا کہ اس مقدمے کے نام سے واضح ہے کہ اس میں شہباز شریف پر الزام ہے کہ اُن کے پاس آمدن سے زائد اثاثے ہیں اور وہ منی لانڈرنگ میں بھی ملوث ہیں۔ اس کیس میں شہباز شریف اور نیب کے درمیان سوال و جواب کا سلسلہ جاری ہے۔

رمضان شوگر ملز

کرپشن کا چوتھا مقدمہ جو شہباز شریف پر قائم ہے اسے رمضان شوگر ملز کے نام سے جانا جاتا ہے، اس مقدمے میں نیب نے الزام عائد کیا تھا کہ شہباز شریف نے رمضان شوگر ملز کے لیے 10 کلومیٹر طویل نالہ حکومتی فنڈز سے تیار کروایا۔ نیب کے مطابق شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، جس سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا۔ ان تمام کرپشن مقدمات کے علاوہ شہباز شریف سانحہ ماڈل ٹاؤن اور سبزہ زار کیس میں بھی ملزم نامزد ہیں۔

مقدمات کی اس طویل فہرست کے باوجود صدر مسلم لیگ ن پر اب تک کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا اور وہ ضمانت پر رہا ہیں اور اس وقت لندن میں موجود ہیں، شہباز شریف کا مؤقف ہے کہ یہ تمام مقدمات سیاسی ہیں اور وہ ان میں سرخرو ہوں گے کیونکہ انہوں نے ایک پیسے کی بھی کرپشن نہیں کی ہے۔

اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ان مقدمات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اگر ماضی کا جائزہ لے کر اندازہ لگایا جائے تو ان مقدمات کا مستقبل روشن نظر نہیں آتا البتہ شریف خاندان اور مسلم لیگ ن کے لئے کچھ عرصے کی مشکلات ابھی باقی ہیں۔