دعا کریں کرونا وائرس پاکستان نہ آئے۔ یہ حکومت بیڑا غرق کردے گی۔

دعا کریں کرونا وائرس پاکستان نہ آئے۔ یہ حکومت بیڑا غرق کردے گی۔

ایران سے پاکستان آنے والے زائرین اور دیگر شہریوں کو تافتان بارڈر پرروک کر ان کو جس جگہ پر رکھا گیا ہے۔ اسے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں ایک بنیادی سی چیز بھی ٹھیک طریقے سے انجام نہیں دی جاتی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تافتان بارڈر پرقریب 300 پاکستانی شہری ایک quarantine میں آباد کیے گئے ہیں جہاں ان کے پاس رہنے اورسونے کی بنیادی سہولیات تک نہیں ہیں۔ نیا دور کو موصول ہونے والی ایکویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان، بوڑھے اوربچے ایک ہی چھت کے نیچےاکٹھے رہنے پر مجبور ہیں، اور رات کو چونکہٹھنڈ بڑھ جاتی ہے تو ایک ایک کمبل میں تین تین لوگ سو رہے ہوتے ہیں۔ دن کے وقت یہاں درجہ حرارت 35 ڈگری تک جا پہنچتا ہے اور ایسے حالات میںیہ لوگ ایک کھلے احاطے میں کیمپ لگا کر رکھے گئے ہیں۔


ایران میں کورونا وائرس کی صورتحال


نجانے یہ کیسا quarantine ہے کہ جہاں بغیر سکریننگ کے ایک ایسے ملکسے واپس آنے والے سینکڑوں افراد کو اکٹھا رکھا گیا ہے جہاں کورونا وائرسسے اب تک غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق 500 سے زائد لوگ مر چکے ہیںاور مریضوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔


پاکستان کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک میں گھرا ہوا ہے


بدقسمتی سے پاکستان میں متواتر حکومتیں صحت اور تعلیم جیسی بنیادیضروریات پر توجہ دینے سے مکمل طور پر قاصر رہی ہیں۔ اور بیماریوں کےعلاج اور ان سے بچاؤ انہی دو چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان اس وقت تین ایسے ممالک کے درمیان میں واقع ہے جہاں کوروناوائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہمارے اپنے ملک میں تاحال یہ تعداد 5 تک ہیں پہنچی ہے لیکن بھارت میں یہ تعداد 30 تک پہلے ہی پہنچ چکی ہے۔ ایران میں3513 افراد اس وبا کا شکار ہیں جب کہ چین جہاں سے یہ وائرس نکلا ہے،80430 کیسز کے ساتھ پوری دنیا میں کورونا وائرس کے کیسز کے اعتبارسے سرفہرست ہے۔لامحالہ ان تین ملکوں کے درمیان میں واقع ان کا ہمسایہ پاکستان بھی کسی نہ کسی موقع پر اس وبا کا شکار ہو سکتا ہے، اور ہماری تیاری یہ ہے کہ ہم ایران سے واپس آنے والوں کو بارڈر پر ڈھنگ سے رکھ کر، ایک کمبل فیآدمی تک نہیں دے سکتے۔


پاکستان کا وباؤں سے نمٹنے کا سابقہ ریکارڈ


خدانخواستہ کورونا وائرس پاکستان میں پھیلنا شروع ہو گیا تو جو حالات ماضی میں ڈینگی وائرس کے دوران دیکھنے میں آئے تھے، کورونا وائرس اس سےکہیں زیادہ شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اس ملک کے نظامِ صحت پر تو بات کرناہی فضول ہے۔ مگر موجودہ حکومت کے دور میں تو صورتحال مزید گھمبیرہو سکتی ہے کیونکہ ان کے یہاں تو ڈسپلن نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ڈینگی بخار 2019 کی خزاں میں پھیلنا شروع ہوا تو وزیر اعظم صاحب تک نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ سردی آئے گی تو مچھر مر جائے گا۔اور کون بھول سکتا ہے کہ ہم آج بھی دنیا کے ان آخری تین ممالک میں شاملہیں جہاں پولیو تاحال ختم نہیں کیا جا سکا۔یہ ایک خوفناک صورتحال ہے جو اس وقت پیدا ہو رہی ہے اور تافتان بارڈر پرایران پلٹ پاکستانیوں کے حالات دیکھ کر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حکام کیجانب سے اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔


حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟


پاکستان کو فوری طور پر ایک عوامی آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔ عوام الناس کو یہ بتانا ہوگا کہ وہ کورونا وائرس سے بچنے کے لئے کیا احتیاطی تدابیراختیار کر سکتے ہیں اور وہ کون سی علامات ہیں جن کے ظاہر ہونے پر فوریطور پر ڈاکٹر سے رجوع کیا جانا چاہیے۔ اور اگر کسی شخص میں وائرس کیتصدیق ہو جائے تو اس کا علاج اور اس کی تیمارداری کا طریقہ کیا ہے۔


صورتحال کس حد تک گھمبیر ہو سکتی ہے؟


یاد رکھیے کہ ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق دنیا کی بالغ آبادی میںسے 40 سے 70 فیصد افراد کورونا وائرس کا شکار ہونے جا رہے ہیں۔ اوراموات کی شرح ایک فیصد بھی رہے تو کروڑوں کی تعداد میں لوگ موت کاشکار ہو سکتے ہیں۔احتیاطی تدابیر کے لئے عوام کیا کر سکتے ہیںنیا دور سے بات کرتے ہوئے قائد اعظم یونیورسٹی کی پروفیسرز ڈاکٹر رباباور ڈاکٹر رانی احتیاطی تدابیر سے متعلق سیر حاصل گفتگو کر چکی ہیں، اس گفتگو کا لنک ڈسکرپشن میں موجود ہے، اسے ضرور سنیے۔ اور ان کےمطابق اہم ترین تدبیر صابن سے بار بار ہاتھ اچھی طرح دھونا ہے۔ جب کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں تو صابن سے ہاتھ دھونے کا رواج ہی نہیں ہے۔ہمارے یہاں 40 فیصد سکولوں میں واش روم تک کی سہولت میسر نہیں، توصابن اور پانی تو بعد کی باتیں ہیں۔ حکومت کو اس سلسلے میں فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ اور تافتان بارڈر پرسامنے آنے والی نااہلی پر قومی سطح پر فوری طور پہ قابو پانا ہوگا۔ وگرنہ معاملات خطرناک صورت بھی اختیار کر سکتے ہیں۔