ایک قصہ سناتا ہوں۔ آپ بھی سنیے، سر دھنیے، لطف لیجئے۔ بقول چچا غالب ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘۔ اس قصے کے متعلق میں بھی یہی چاہتا ہوں کوئی بھی اس کو سمجھنے کی بھی غلطی نہ کرے۔
کچھ سال قبل جب ہمارا ایمان کچھ بہتر حالت میں تھا۔ کیونکہ انبیا کا ایمان (یوں کہہ لیں ایمانی حالت) بڑھتا رہتا تھا، فرشتوں کا ایمان ایک جگہ قائم ہے اور ہمارا بحثیت امت ایمان کبھی بڑھتا ہے تو کبھی کم ہوتا ہے۔ کبھی بندہ تہجد کی نفلی نماز تک بھی پڑھتا ہے اور کبھی ایک فرض نماز بھی نہیں پڑھتا۔
ان دنوں ہمارا ایمان بھی ایک امتی کی طرح کچھ بہتر حالت میں تھا۔ بہتر حالت میں صرف اس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ نیکیاں کرنے کا خودبخود دل کرتا تھا۔ یونیورسٹی سے بھی مکمل فراغت تھی۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے قیمتی بنانے اور آخری عشرے میں اللہ پاک کی رحمتوں اور برکتوں کو وافر مقدار میں سمیٹنے کے لئے۔
ہم نے رمضان کریم میں اپنے آبائی گاؤں والی مسجد میں اعتکاف کرنے کا ارادہ کیا۔ گاؤں میں سب ایک دوسرے کو جانتے ہوتے ہیں، کیونکہ کچھ اور ہو نہ ہو، سارا گاؤں شام کو نیم کے درخت کے نیچے ایک دوسرے کی چغلیاں کرنے تو ضرور جمع ہوتا ہے۔ شہر والوں کو کاروبارِ دنیا سے فرصت ملے تو وہ اس کو سمجھ سکیں۔
تو بات دراصل کچھ یوں ہوئی کہ ہمارے ساتھ اعتکاف کرنے والے سبھی کو ہم جانتے تھے، وہ بھی ہمیں برابر جانتے تھے۔ اعتکاف شروع ہوا تو پہلے دن سے ہی باقاعدہ طور پر مسجد میں اعتکاف کے دوران روزے کی حالت میں باجماعت غیبتوں کا دور چلنا شروع ہو گیا تھا۔ جو بعض اوقات تو ایک نماز سے دوسری نماز کے تمام وقفے پر محیط ہو جاتا تھا۔ ہر کوئی اپنی شکایت کی گھٹری سر پر لادے مسجد میں چلا آتا تھا۔ ہر طرف شکئیتوں کا ایک انبار لگا ہوتا تھا۔
کسی نمازی کا کسی اور نمازی کے ساتھ اذان دینے پر مسئلہ تھا۔ تو کسی کو اعتکاف والوں سے شکایت رہتی تھی۔ تو کوئی مسجد میں اذان دینے کے لئے اپنے ساتھ بندے لے کر آتا تھا تاکہ اگر کوئی مجھے اذان سے روکے تو میرے بندے اس کا سانس روک دیں۔ ہمارے مولوی صاحب بجائے اس کے کہ اس معاملے میں منصف بنتے اور اس مسئلے کو حل کرنے کی طرف اپنی صلاحیتیں مبذول کرتے، انہوں نے بھی اس مسئلے میں ایک فریق بننے کو ترجیح دی۔ اُن سے بھی شکایت کیسی، ہمارے یہاں منصفی کے عہدے پر براجمان لوگ منصبی عدل لو جلا بخشنے کے اپنی ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر فریق بننے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
ہماری طفلانہ طبیعت اور بچوں پر شفقت کی وجہ سے ہم بچوں سے اور بچے ہم سے جلدی متاثر ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے دورانِ اعتکاف ہمارے فرصت کے لمحات مسجد میں آنے والے چھوٹے بچوں کے ساتھ گزرتے تھے۔ مسجد میں آنے والا بچہ پانچ سال کا ہوتا یا پندرہ سال کا سب سے ہمارا یارانہ بن گیا تھا اور اب بھی کبھی سرِراہ وہ سارے بچے ملیں تو نہایت ادب اور محبت سے ملتے ہیں، اور پوچھتے ہیں، پھر دوبارہ کب اعتکاف پر بیٹھ رہے ہیں۔ اب انہیں کیا بتلائیں کہ دل ڈھونڈتا ہے فرصت کے وہی شام و سحر۔
گاؤں میں مسجد میں ہمارے ساتھ ہی اعتکاف کرنے والے ایک حضرت جو تقریباً ہر سال مسلسل اعتکاف فرماتے رہے تھے۔ مسجد میں آنے والے بچوں سے ہماری بڑھتی ہوئی دوستی کے سبب وہ جناب بچوں کو ہمارے ساتھ بیٹھنے سے منع فرمایا کرتے تھے کہ یہ وہابی ہے (احباب جانتے ہوں گے گاؤں میں اپنے سے مختلف فکر والے کو وہابی ہی کہا جاتا ہے)، اس کے پاس نہ بیٹھا کرو، خود تو خراب ہے ہی تمہیں بھی خراب کر دے گا۔ اور ہمیں بٹھا کر الگ سے نصیحتیں فرماتے کہ بچوں کو پاس نہ بٹھایا کرو۔ اپنی عبادات پر دھیان دیا کرو۔ بچے ایسے ہی مسجد میں آ کر شور کرتے ہیں مسجد کا پرسکون ماحول خراب کرتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات وہ یہ بات کرتے ہوئے بھول جاتے تھے کہ بچوں سے ماحول خراب ہوتا ہو یا نہ لیکن غیبت سے مسجد کا ماحول ضرور خراب ہو جاتا ہے۔ یا شاید بوڑھا ہونے کے سبب اس معاملے میں انہیں استثنا حاصل تھا۔
لیکن ہم اور وہ بچے کہاں کسی کی سننے والے تھے؟ اعتکاف والے دیگر احباب کے ساتھ جب کسی بھی موضوع پر گفتگو ہوتی تو پہلے جا کر اُن حضرت سے وہ ہماری رائے کے متعلق ان حضرت کی رائے لیتے کہ ایسے ہی ہے، کہیں یہ بے عقیدہ ہمیں بھی ہمارے عقیدے سے تائب نہ کر دے۔ سادہ لفظوں میں یوں سمجھیں ہم نے اس اعتکاف میں کچھ حد تک بڑوں سے تعلق بگاڑا اور بچوں سے خوب تعلق بنایا۔
قصہ مختصر آپ یہ سمجھیں انہوں نے ہمارے ساتھ اور ہم نے اُن کے ساتھ نہایت کھٹن اور مشکل ترین دس دن گزارے۔ شوال کا چاند نظر آنے کے بعد ہم نے اُن سے بچھڑنے پر خدا کا لاکھ شکر ادا کیا۔ اور اپنے گھر کی راہ لی۔