تحریر: ( امجد نزیر )
اکبر خان میوات کے ایک گاؤں کا رہنے والا تھا، اُسکے تین بچے تھے اور ایک گائے، جولائی 2018 کی ایک صبح وہ دواور گائیں لینے شہر کیطرف نکلا، چند گھنٹوں بعد خون میں لت پت جھاڑیوں میں کراہتا ہوا ملا۔ آنکھ بگڑی ہوئی، ناک اور گردن، بازو اور ٹانگیں متعدد مقامات سے ٹوٹے ہوئے۔
پولیس پہلے گائے کو گوء شالہ چھوڑ آئی اور کوئی تین گھنٹے بعد اکبر کو ہسپتال، جہاں پہنچتے ہی اُسنے دَم توڑ دیا۔ محض کیس درج کروانے میں ڈیڑہ مہینہ لگا۔ بقول اُسکی بیوہ کے 'گایوں کی محبت اکبر کو لے ڈوبی' ۔ اَنبوہ گردی یا ِگروہی قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، اِس سے پہلے اپریل سترہ میں پہلُو خان کو بھی میوات ہی میں گائے سمگلنگ کے شُبے میں گھسیٹ گھسیٹ کرسڑک پر ہی مارڈالا گیا تھا ـ دہلی کے دہانے پر بلند شہر، دَدری گاؤں کے اخلاق کو بھی ستمبر 2015میں گائے کاٹ کرفریز کرنے کی اَفواہ پھیلا کر مار ڈالا گیا تھا جبکہ اُسکا اَدھ مؤا نوجوان پِسر مہینوں بعد جانبرہوا۔ عید سے صرف ایک ہفتہ پہلے مَدھیہ پردیش میں دو بھائیوں اور ایک عورت کو بھی گوشت لیجانے کے شُبہ میں درخت سے باندھ کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تمام واقعات میں دہشت کا دائرہ بڑھانے کیلئے ویڈیوز بھی وائیرل کر دی گئی۔
یہ اور اِس نوعیت کے دُوسرے وحشیانہ واقعات گِنے چُنے نہیں بلکہ پنج سالہ مُودی سرکار میں تقریبا" 127 مسلمانوں اور کچھ دلّتوں کو گائے لانے لیجانے یا ماس خوری کی پاداش میں گاؤ رکشکوں (محافظوں) نے بھیڑبھاڑ اور شور شرابا کر کے لرزا دینے والی لٹھ بازی کا نشانہ بنایا۔ 78 افراد دم توڑ گئے اور باقی ناقابل بیان حد تک ذخمی ۔ عورتیں بھی اس بربریت سے بچ نہ سکیں ـ ڈنڈا برداری اور گالم گلوچ کی گُونج میں وہ مظلوم مسلمانوں کو'جَے شِری رام' کی صداٰئیں لگانے پر مجبور کرتے ہیں اور بعضوں کوپانی مانگنے پر گائے کا مُوت پیش کرتے ہیں، کئی مضروب و مقتول ایسے ہیں جنکے گھر والوں کو بھی طرح طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے ـ
کانگریس کے دانشور نیتا ششی تھروُرکےالفاظ میں "ہندوستان میں گائے کا جیوّن ایک مسلمان سے ذیادہ محفوظ و محترم ہے" دراصل گائے کا تقدُس بہانہ ہے، مسلمان نشانہ ہے ـ
معاملہ یہاں تک لے آیا گیا ہے کہ پورا دیش ماسا ہاری اور شاکا ہاری 'دو قوموں' میں بَٹ چُکا ہےـ اور درپردہ مقصد بھی یہی ہے ـ گائے نہ صرف ہندؤں، مسلمانوں، دَلّتوں، مسیحیوں، سکھوں اور بُودھیوں کے درمیان افقی اور عمودی تفریق کا ہتھیار ہے بلکہ حقوقِ انسانی کی تحقیر کا دھرمی ذریعہ اور طریقہ بھی ـ بشمول اورحربوں کے گائے بھی اقلیتوں پر خوف کی چھایا قائم رکھنے کا حوالہ ہے۔ پولیس ، پسماندہ خیال ہندُوتوا گرد نیتا، رَکشکوں کی رِکشا کرتے ہیں ـ بال ٹھاکرے کی شیوّسَینا جیسی کٹرہندو تنظیمیں تشدد کی تربیت دیتی ہیں ـ قتل کے بعد وہ جلسےجلوسوں میں دھمکیاں دیتے ہیں کہ "جس دن ہمارا سَر گھوم گیا ہم گاؤماتا کی آن میں رام دھرتی سے موسلوں کا صفایا کردیں گے.
گائےکی بڑھتی ہوئی تکریم و عزت کے پیشِ نظر'یوسف صدیقی اورراجیوّتیاگی' ایک طنزیہ میں کہتے ہیں کہ: 2025 تک ہندوستان مکمل گاؤ دھرتی بن جائے گی جہاں 'ایکاؤنام کس'، اکنامکس سے زیادہ اہم ہوگی، گایؤں کی ملکیت کا کمپوٹرائزڈ ریکارڈ ہو گا، شناختی کارڈ یا گاؤدھار کارڈ اور24/7 ایمرجنسی ہیلپ لائن ہوگی، علاج معالجے کیلئے سپیشل ہسپتال اور مہنگے مہنگے گاؤناکالوجسٹ اورلیبارٹریاں ہونگی۔ متوفّی گائےکی پُروقار تدفین ڈَیتھ سرٹیفیکیٹ اور ضلعی ریلیزفارم کے بغیر ممکن نہیں ہوگی ـ
گاٗئے بارے ہرطرح کی اچھی بُری کال ریکارڈ کی جائیگی، سروسز کی فراہمی مقامی گاؤ رکشک لیڈر کے اَین او سی اور سَرپنچ کی اجازت سے ہو گی اور یہ سب کچھ نہ ہونے کی صورت میں گاؤرکشک کسی جان لیوا پٹائی پر حق بجانب ہونگے" ـ کیونکہ معاملہ اگر مقدس گائے کا ہو تو بھیڑ ہِنسا کون روک سکتا ہے ـ جِس پر ابھی تک کوئی جامع قانون بھی نہیں ـ ڈاکٹر سیمؤیل جاہنسن صیحح کہتے تھے کہ " مذہبی قوم پرستی غنڈوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہے"
گائے سے متعلق یوگیوں، پنڈتوں اور دھرم آدار پر سیاست کرنے والوں نے طرح طرح کے فسانے تراش رکھے ہیں مثلا" یہ کہ گائے کی پُٹھ پر ہاتھ پھیرنے سے بیمار کو شفاء ملتی ہے ـ آلودہ تالاب کی گوبرڈال کرتطہیر کی جا سکتی ہے، نہار مُنہ دوچمچ گاؤ مُوت پینے سے بدن پانی کی طرح ہشاش اور شفاف ہو جاتا ہے ـ اور یہ کہ گائے تمام جانوروں سے ہٹ کر اپنے لبوں اور لَبلَبی سے آکسیجن خارج کرتی ہے ـ انسانی جذبات بھی سمجھتی ہے اور آنکھوں سے کلام کرتی ہے ـ
تب یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ بھارت میں دودھ 80 روپے اور گاؤموت 250روپے لٹر ملتا ہے ـ
ذات پات کے خلاف جہاد کرنے والےممتاز لیڈربھیم راؤ امبید کار نے ١٩٤٨ میں لکھے گئے ایک عالمانہ مقالے میں ثابت کیا کہ گاؤ ہتیا کی ممانعت 'ویدوں'،'اپنیشد' حتٰی کہ دھرمی مرقعِء قانون 'منو سمریتی' میں بھی نہیں ہے اور نہ ہی گاؤ ماس کھانے ہر کسی اَپرادھ کا ذکر ہے۔ تیسری صدی عیسوی میں اشوک کی بُدھ سلطنت میں گائے ذبح کرنے پر اِسلئے پابندی تھی کیونکہ بدھ مت اور اشوکِ اعظم تمام حیات کو ایک دوسرے سے منسلک سمجھتے تھے؛ صرف گائے کو تقدس یا مرکزیت حاصل نہیں تھی ۔ امبیدکار کے نزدیک قرونِ اولٰی میں ماسا ہاری مخالف بُدھ مت ھندوستان کا غالب دین بن چُکا تھا اور بُدھ بِھکشوں سے متاثر ہو کر سناتن دھرمی برہمنوں نے بھی ماس کھانا ترک کر دیا ۔ مال مویشی کے زرعی معاشرے میں گائے کی پیداواری اہمیت کے سبب گائے کو گپتا سلطنت (چوتھی صدی) میں تقدس عطا کیا جانے لگا ـ لیکن ہندو دائرہ کار میں ہی اَچھوُتوں کومُردہ گائے اور تلف کرنے کا کام سونپا گیا ـ اگر کوئی نہ بھی مارے طبعا" بھی تو ہر گائے کوایک دن موت کا ذاٗئقہ چکھنا تھا اور اُسکی نعش کو کِرم زدہ بدبُو دار بھی ہونا تھا ـ جس سے مُضر اثرات انسانوں پر منتقل ہونے کا خطرہ تھا ـ اس لئے پہلے ضرورت، پھر فرض اور پھر مردہ گایوں کی تلفی اورچرمی مصنوعات بنانا اچھوتوں کا دھرمی پیشہ قرار دے دیا گیا ـ اس طریقے سے برہمنوں نے گائے تلفی کا مسئلہ حل کرنے کے ساتھ ساتھ بدھ مت کو بھی اپنے دامن میں سَمو لیاـ
اہمساء پسندی کے باوجود گاندھی جی بھی گائے کو ہندو مت کی روح، کروڑوں بھارتیوں کی ماں بلکہ ماں سے بھی ارفع تر، رکشکوں کی دھرمی آزمائش، دُکھیاری نظم، حیات کا استعارہ، ارتقاء کا مظہر، رحم کی اپیل، لائق عِبادت، خوشحالی کی ضمانت، مجبوروغریب مخلوق اور نہ جانے کیا کچھ قرار دیتے تھے اور ایک مقام پر انہوں نے تلوار کی دھار پر بھی گاؤ رکشا کا پرچار کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بنیاد پرست ہندوتوّا اوردوقومی نظریے کے خالق، بھارتیہ جنتا پارتی کے جنم کار، راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد کے پیرومرشد 'ونائیک دامودرسَوارکر' ہمہ قسم کے ماسا ہاری تھےـ غالبا" ١٩٣٣میں جب گاندھی جی لندن میں اُن سے ملنے گئے تو انہوں نے پلیٹ گاندھی جی کے سامنے رکھ دی اور انکار سُن کر طنزیہ کہا 'اگر آپ پروٹین نہیں کھائیں گے تو انگریزوں کا مقابلہ کیسے کریں گے؟' ـ گاؤ رکشا کے آل اِنڈیا شور شرابے میں یہ ذکر بہت ضروری ہے کہ عظیم سیاستدان اور آزاد ہندوستاں کے بانی مبانی پنڈت نہرو بھی گوشت خور تھے ۔ تقسیم کے بعد گاؤرکشکوں کے گائے کاٹنے پر پابندی کے مطالبے کے جواب میں اُنہوں نے کہا "ْ تم کیوں میرے خلاف پراپیگنڈا مہم چلانا چاہتے ہو؟ اصرار ہوا کہ 'اگر آپ اپنی عادت کا پردہ رکھنا چاہتے ہیں تو پابندی ہی بہترین طریقہ ہے' ـ سچ یہ ہے کہ دلّتوں سمیت ہندوں کی بہت سے طبقات گوشت کھاتے ہیں اور کھاتے رہے ہیں ۔
اورتواورنوجونواں میں بے حد مقبول عصرِحاضر کے رِشی سَدھ گروُ بھی گُھما پھرا کرگائے کی تاریخی و معاشی اہمیت بڑھاتے بڑھاتے اُسے پاکیزگی کے پائیدان پر بٹھا دیتے ہیں بلکہ گائے کو آدم خوری اور مادر خوری قرار دے کر کریہہ اقدام قرار دیتے ہیں ۔ جہاں تک گائے کے معاشی کِردار کا تعلق ہے تو وہ ہندومسلمان دونوں کے لئے ایک سا ہےِ۔ لاکھوں مسلمان بھارت اور بھارت سے باہر گا ئیں پالتے پوستے اورعزیز رکھتے ہیں کیونکہ یہ دودھ، مکھن، ایندھن اورآمدنی کا ذریعہ ہے ۔ اگر ایسی بات نہ ہوتی تو مسلم اور مسیحی معاشروں میں گائے کا وجود ختم ہو چکا ہوتا اور ولندیزی، آسٹرلیوی یا ساہیوالی گائیں مشہور نہ ہوتیں ـ
ماتا قرار دینے کے باوجود جب گائے سوکھ جاتی ہے توپوّترہندوُ اُسے برامد، ماضی قریب تک مذبح خانہ اور اب آوارہ یا فلاحی اداروں میں چھوڑ آتے ہیں تاکہ چارہ پانی کا بوجھ نہ پڑے ـ تاریخ گواہ ہے کہ تقسیم سے قبل جب بنگال، آسام ، بہار اور دوسرے شہروں میں قحط پڑتا تو کٹرپَنتھی ہندو گائے کاٹ کر کھانے والوں میں پیش پیش ہوتے۔ پھر گاؤماتا، گاؤ پوجا اور گاؤ دھرم کی ساری داستانیں دھری کی دھری رہ جاتیں ۔ کسی جادوئی اثر میں آج اگر ہندوستان کی تمام گاٰئین دودھ دینا بند کر دیں تو کچھ ہی عرصے میں گاؤ کُشی جائز بلکہ مقدس قربانی قرار دے دی جائے گی ۔ ھندوہستان پہلے ہی گائیں برامد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے خصوصا" مینڈھے اور بیل ـ
گویا جہاں بھی جانورکی پیداواری حیثیت ختم ہوتی ہے وہیں تقدس کے افسانے دم توڑ دیتے ہیں ۔ پس واضح ہوا کہ معاشی اور مزہبی دونوں دلائل منافقت کی اعلٰی مثالیں ہیں ـ گاؤ تسکروں (سمگلروں) کی گرفت کے بہانے کمزورں کے ڈنگر ہتیانا کاروبار بن چکا ہے اور پردہ دری کے لئے پراپیگنڈہ عام ہے کہ مسلمان چور، غُنڈے، اغواکار اور قانون شکن ہیں ۔ زرتلافی کے لئے ہی گائے کاٹتے اور سمگلنگ کرتے ہیں (یعنی اپنی جان داو پر لگاتے ہیں!) ـ
موجودہ صورت حال کے برعکس براہمہ یعنی ہندُو مت "ہمہ اُوست اور ہمہ اَزاُوست" کے سِریانی اور صوفیانہ فلسفہ پرٹھہرا ہے جِس میں خدائے واحد سے لے کر تشکیک اور الحاد جیسے تمام نظریا ت 'ارتداد نہیں' بلکہ ہندومت کے رسمی دھرمی تصورات کا حصہ ہیں ۔ جِس کے مُطابق حقیقت ایک ہے مگراُس تک پہنچنے کے راستے جُدا جُدا ہیں۔ جسطرح دریا ہر سمت سے سمندر میں گر کرسمندر ہو جاتے ہیں، حقیقت کی تلاش بھی ویسی ہی ہے ۔ تنگ نظرسامی مذاہب کیطرح وہ حقیقت اورحقانیت پر واحد اُجارہ داری قائم نہیں کرتا بلکہ چاروں اور سے رواداری اور قبولیت کے دروازے کھُلے رکھتا ہےـ
سادہ لفظوں میں ویدانیت سوال، تلاش، اسرار اور امکان کی تمام ممکنات کو تسلیم کرتی ہے۔ اُسکے خیال میں حتمی جواب ممکن نہیں اور شاید اِسکی ضرورت بھی نہیں ـ
ہندومت کے شمولیاتی فلسفہ کے سکالرسوامی ویوک آنند کی رائے میں ہندومت عقیدے سے کہیں آگے جیون دھارا کا ایک رویہ ہے جو نہ صرف آزاد فکری کی حوصلہ افزائی کرتا ہے بلکہ تلاشِ حقیقت (برخلافَ اٹل حقیقت) کو دھرم کا اٹوٹّ اَنگ مانتا ہےـ ساڑھے تین ہزار سال پہلے 'رِگ وید' تخلیق کے بارے میں یوں کلام کرتی ہے " کون جانتا ہے کہ حیات اور کائنات کیسے وجود میں آئے؟ فقط وہی جانتا ہے جس نے یہ کاٰئنات تخلیق کی؟ ؛ وہی جو ارض و سماء پر اپنی نظر رکھتا ہے؟ وہی علیم و خبیر ہے صرف اُسے ہی خبر ہے اور کیا خبر اُسے بھی خبر نہ ہو" یعنی ایک ایسا عقیدہ جو تخلیقِ اِنسانی اور وجود کے ہر پہلُو پر سوال اُٹھاتا ہے گاؤ رکشا کیلئے قتل و غارت کو کیسے فرض قرار دے سکتا ہے؟ ششی تھروُر کی رائے میں اگر ویوک آنند زندہ ہوتے تو راشٹریہ گَر اُنکو بھی بھیڑ ہِنسا میں قتل کروا ڈالتے۔
اِدھر پاکستان میں آزادی کے بعد سے ابتک کم و بیش ملتے جُلتے انداز میں اسلام کی سَر بلندی اورشان و شوکت کے نام پردھرنے، مظاہرے، جلاؤ گھیراؤ، اڄتجاج، مطالبات، الزامات، قانون سازی، فتوے، گرفتاریاں اور حال ہی میں اُبھرنے والی انبوہ گردی اور سرِعام تشدد ایک مستقل سلسلہ بن چکے ہیں ـ کئی ایک جماعتیں ایسی ہیں جو حرمتِ اسلام کے لئے کم اور مُلک میں مزہبی داد گیری کے لئے زیادہ کام کرتی ہیں ـ ایسی ہی جماعتوں کے دباؤ تلے پاکستان اسلامی جمہوریہء پاکستان بن چکا ہے اور تحفظِ اسلام کے لئے کئی ایک قوانین بھی ترتیب دیے جاچکے ہیں ۔ بھلا ایک ایسا مُلک میں جسمیں ٩٦ فیصد سے ذائد لوگ مسلمان ہوں وہاں اسلام کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ پا پھر قلیل اور منتشر اقلیت سے کیا خوف ہوسکتا ہےِ؟ ۔ لیکن مسٖئلہ اقلیت کا یا کسی متوقع خطرے کو روکنا نہیں بلکہ ہندوتواء پسند راشٹریہ کیطرح طاقت تک رسائی اور اپنی دھاک بٹھانا ہے ۔
توہینِ اسلام کے حوالے سے لگنے والے الزامات کے اعدادو شُمار گواہ ہیں کہ اقلیتوں کی تعداد محض4 فیصد ہے مگر اُن پر لگنے والے الزامات کی شرح 45 فیصد کے قریب ہے ۔
اکثر واقعات یا تو بے بُنیاد شک و شبے پر مبنی ہوتے ہیں یا پھر پسِ واقعہ زمین، جائیداد، شادی کی خواہش اور کوئی تنازعہ یاغرض پنہاں ہوتی ہے ـ بہت سے الزامات کی تہہ میں کوئی صداقت نہیں ہوتی ۔ مثال کے طورپرآسیہ بی بی اور مشال خان دونوں کیسزمیں عدالتِ عظمیٰ نے مدعیوں اور پراپیگنڈا کرنے والوں کے الزامات غلط ثابت کیے ہیں ـ
دوسری جانب نام نہاد گُرؤں اورپنڈتوں کیطرح پیروں، فقیروں، بابوں اورعاملوں نے اپنے کلام کی طاقت کے روح فرسا اور چَشم کُشا قِصے تراش رکھے ہیں ـ پیروں اور پیروں کے مزاروں سے لوگ مال و عزت اور پسند کی شادی سے لے کر اولاد تک کی توقع رکھتے ہیں ـ حال ہی میں پڑھے لَکھے، کلین شیوّاور تھری پیس ماڈرن ملاؤں، بابوں اوراینکروں کی نئی کھیپ پورے ُملک میں اُمڈ آئی ہے ـ مدبرانہ اور صُوفیانہ علم الکلام کے ذریعے وہ راسخ العقیدگی بلکہ انتہا پسندی کی ترغیب دیتے ہیں ـ اُنکی چمکدار صفحوں پر چھپنے والی مہنگی کتابوں، ناولوں، اور ٹیلی وژن پروگراموں کی لچھے دار گفتگومیں اُنکا ریڈیکل ایجنڈا چھلک رہا ہوتا ہے ـ اِدھر آپ نے کوئی عقل و شعور کی بات کی، اُدھر کُفر اور شرک کا فتوٰی تیار ـ موجودہ حکومت میں خان صاحب کے مدنی ریاست کے نعرے اور مذہبی رُحجانات عوام میں مذہبیت کو مزید فروغ دے رہے ہے ۔ ہاتھی پاؤں کےمیں سب کا پاؤں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ عقائد کے پُر تشدد تحفظ پر ختم نہیں، بلکہ شروع ہوتا ہے اور اگر مقصد ایسے اقدامات کو روکنا ہی ہے تومطلوبہ قوانین کی موجودگی میں انتہا پسند مسلمان اور ہندو خود ہی سزاو جزا کا مکروہ تھیٹر کیوں لگاتے ہیں؟ دنیا میں متفرق تنازعات نے ثابت کیا ہے کہ تشدد، تشدد کو جنم دیتا ہے۔ جب کسی اقدام کو روکنے کے لئے کُھلےعام بربریت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے توویسا ہی ردِعمل جَڑ پکڑتا ہے اور پُر تشدد رحجانات عام ہو کر معاشرتی نفسیات کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ ہندوستان ہو یا پاکستان، مقدس گائے کا مسئلہ ہو یا حرمتِ اسلام کا، بات آگے بڑھتی ہے اور ہردوسرے معاملے میں لوگ ہاتھا پائی اور دنگا فساد کے ذریعے خود ہی مساٗئل سے نمٹنا شروع کر دیتے ہیں اور ریاستی ادارے تعاقب کرتے رہ جاتے ہیں۔
ایسے تمام علماء جوایک مسجد میں نماز ادا نہیں کر سکتے، مکالمہ نہیں کر سکتے اور ایک دوسرے پر کفرو شرک کے فتوے لگاتے ہیں، دین جیسے حساس موضوع پر اُنکی رائے کیسے صائب ہو سکتی ہے؟ اُن کا مقصد اسلام کی دُرست ترین شرح نہیں، جو کہ ہر مسلک کی اپنی ہے، بلکہ مذہبی آمریت اور لٹھ برداری ہے ـ
اگر حُرمت اور تقدس کے مطالبات اِس قدر اہم تھے تو برطانوی دور میں ہندو گاؤ رکشکوں اور عظمت اسلام کے مجاہدوں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر محض اس مقصد کیلئے اپنی جانیں نچھاور کیوں نہ کیںـ بٹوارے سے پہلے ایسی جماعتیں سیاسی بصیرت سےعاری تھیں، اسلئے کمزور رہیںـ سرحد کی دونوں جانب انتہا پسند جتھوں کو ایسی قانون سازی کروانے میں آدھی صدی لگ گئی ـ اشتعال آمیز تقدُس کے ترنگے اور ترانے غلامانہ ذہن ، بیمار مذہبی نفسیات اور خام خیالی کے عکاس ہیں ـ پاکستان میں قلعہ اسلام ہونے کا واہمہ اور غلبۃ اسلام کی خواہش سراب ہے اور اَجو کے ہندوہستان میں ہندوراشٹریہ کے نیّن تَرن کا مسلم سلاطین، مغلوں اور نوآبادیات کی جارحیت کا انتقام عام مسلمانون یا مسیحیوں سے لینا حماقت ہے ـ اِسی طرح توہینِ اسلام کے بعض مغربی یا ہندوستانی اقدامات کا پاکستانی مسیحیوں یا ہندؤں سے بدلہ لینا بے وقوفانہ حسابیّت ہے ۔
مشتعل انبوہ گردی سراسر مذہبی جذبات پر مبنی خودکار اقدامات نہیں ہوتے بلکہ کہیں نہ کہیں اُنہیں سیاستدانوں یا نیتاؤں کی حمائت یا سہولت ہوتی ہے۔ دائیں بازو کی حکومتوں، انتہا پسند سنستھاؤں اورکنزرویٹوّ قانون سازی سے پہلے اور بعد کی بربریتی شرح میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے ۔ توقع کے برعکس ایسی قانون سازی روک لانے کی بجائے انتہا پسندوں کو غنڈہ گردی کا جواز فراہم کرتی ہے ـ
طرفین کو گرفتار کرنے کے باوجود اکثرجابرحملہ آور گروہی شک وشُبے اور متعاون قانون کی وجہ سے چھوٹ جاتے ہیںـ رُجعت پسند حکومتوں کا مقصد کثیر قومی ملکوں میں اکثریتی مذہبی تسلط بڑھانا اور قائم رکھنا ہوتا ہے ـ
قصہ مختصر جب تک سادہ ترین اکثریتی جمہوری نظام میں اصلاحات کر کے معقول خطوط پر طاقت کا متناسب بٹوارہ نہیں کیا جاتا اُس وقت تک سستی جذباتیت کی معرفت پاپُولر حکومتیں آتی رہیں گی جو عوام کو مذہبی یا نسلی حاشیوں پر منقسم اور باہم دست و گریباں رکھیں گی۔
یاد رہے کہ ١٩٢٠ کے عشرے میں تحریکِ خلافت کے دوران گاندھی جی کے رُجعت پسند مُسلم سییاستدانوں کا ساتھ دینے پر محمد علی جناح نے کہا تھا کہ " سیاسی مذہبیت کو(کسی بھی رنگ میں) فروغ دینے کے انتہائی خطرناک نتائج برامد ہونگے" اور ١٩٢٠ کے عشرے میں ہی ہندو مسلم فسادات عروج پر پہنچ گئے ـ ساتھ ہی یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ہندوستان کے روشن خیال حلقے اور کُچھ میڈیا ہاوسز مسلمانوں کےحق میں جو سولات اٹھا رہے ہیں، کیا ہم اقلیتوں کے حق میں وہ سوالات اُٹھا رہے ہیں؟
مصنف سماجی اور ترقیاتی تجزیہ کار ہیں ـ وہ اسلام آباد کے ادارہ برائے تحقیق و ترقی (ادراق) سے وابستہ ہیں