ناقص تفتیش، قانون میں سقم؛ ریپ کے محض 4 فیصد ملزم ہی سزا پاتے ہیں

لاہور ہائی کورٹ کی ماتحت عدلیہ کی کارکردگی رپورٹ کے مطابق 2023 کے آغاز میں پنجاب کی ضلعی عدالتوں میں ریپ کے ایک لاکھ 25 ہزار 711 کیسز زیر سماعت تھے جن میں سے 19 ہزار 894 مقدمات کے فیصلے کئے گئے۔ محض 780 کیسز میں سزائیں سنائی گئیں۔

ناقص تفتیش، قانون میں سقم؛ ریپ کے محض 4 فیصد ملزم ہی سزا پاتے ہیں

پنجاب کی ضلعی عدلیہ میں ریپ کیسز کی سماعت کرنے والے ججز نے ریپ کیسز میں ملزموں کی بریت کی مختلف وجوہات کی رپورٹس لاہور ہائی کورٹ کو بھجوائی ہیں جن میں ججوں کی اکثریت نے ملزموں کی بریت کی شرح بڑھنے کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔ ان وجوہات میں اینٹی ریپ ایکٹ کے تحت تفتیش کا نہ ہونا، تفتیش کا ناقص معیار، تفتیشی افسروں کی نا اہلی، بروقت مقدمہ درج نہ کرانا، شواہد بروقت نہ اکٹھے کرنا، ڈی این اے سیمپلز کو بروقت فرانزک کیلئے نہ بھجوانا، چالان کی مناسب سکروٹنی نہ ہونا، قانونی سقم، تفتیش میں جدید آلات کے ذریعے شواہد اکٹھے نہ کرنا اور میڈیکل میں تاخیری حربے استعمال کرنا شامل ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کی ماتحت عدلیہ کی 2023 کی تیار کی گئی کارکردگی رپورٹ کے مطابق 2023 کے آغاز میں پنجاب کی ضلعی عدلیہ میں ریپ کے ایک لاکھ 25 ہزار 711 کیسز زیر سماعت تھے جن میں سے 19 ہزار 894 مقدمات کے فیصلے کیے گئے۔ محض 780 کیسز میں ملزمان کو سزائیں سنائی گئیں جبکہ 677 کیسز کو فریقین کے درمیان راضی ناموں کی بنیاد پر نمٹایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق 9 ہزار 150 کیسز میں ملزمان بریت کی درخواستیں دائر کرنے کے بعد بری ہو گئے اور 4 ہزار 197 کیسز کے ٹرائل مکمل ہونے کے بعد ملزمان بری ہوئے۔

رپورٹ میں ریپ کیسز میں سزاؤں کی شرح محض 3 اعشاریہ 92 فیصد ہونے کا انکشاف ہوا ہے جبکہ 67 فیصد کیسز میں ملزموں کی بریت کا ذکر کیا گیا ہے۔ 457 مقدمات کو غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی کیا گیا اور 4 ہزار 105 کیسز میں ملزموں کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کر کے کیسز کو داخل دفتر کیا گیا۔ ایک برس میں ریپ کیسز کے ملزموں کی بریت کی شرح 67 فیصد جبکہ سزاؤں کی شرح صرف 4 فیصد رہی۔ 29 فیصد ایسے کیسز تھے جن میں ملزم اشتہاری ہو چکے تھے اور ملزموں کو ٹرائل مکمل ہونے تک سزائیں ہونے کے امکان نہیں تھا۔

پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ہمارا معاشرتی نظام اس طرز کا ہے کہ اگر کسی خاتون کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مقدمہ درج نہ کروائے۔ اسی بات کا فیصلہ کرتے ہوئے وقوعہ کے بعد دو سے تین روز ایسے ہی گزر جاتے ہیں اور اس کے بعد مقدمہ درج ہونے کے وقت تک وقوعہ کا بنیادی ثبوت مقدمہ تاخیر سے درج ہونے کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ پولیس دقیانوسی سسٹم کے تحت تفتیش کر رہی ہے، پولیس اور فرانزک سائنس ایجنسی کے درمیان جو ایک معیاری لائزن ہونا چاہیے وہ بھی موجود نہیں ہے۔ فرانزک سائنس ایجنسی کو ڈی این اے سیمپلز تاخیر سے بھجوائے جاتے ہیں اور اس وجہ سے رپورٹ میں ڈی این اے میچ نہیں کرتا۔  پراسیکیوشن کے پاس جب کیس سکروٹنی کیلئے پیش کیا جاتا ہے تب تک تمام شواہد کو قانون کے مطابق درست کرنے کا وقت بھی گزر چکا ہوتا ہے۔ جب تک پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسر مل کر کیس پر کام نہیں کریں گے تب تک ریپ کے مقدمات میں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

سید فرہاد علی شاہ نے کہا کہ جب سکروٹنی کیلئے کیس پراسیکیوشن کو بھجوایا جاتا ہے تو اسی دوران ناقص تفتیش ظاہر ہونے پر تفتیشی افسروں کے خلاف کارروائی کی بھی سفارش کی جاتی ہے۔ چونکہ پولیس نے ہی ناقص تفتیش پر اپنے ہی عملے کے خلاف کارروائی کرنا ہوتی ہے اور اسی وجہ سے پولیس تفتیش میں آنے والے سقم ختم نہیں ہو رہے۔ کیسز میں ملزموں کی بریت کی شرح کم کرنے کیلئے ججز، پراسیکیوٹرز، پولیس، فرانزک سائنس ایجنسی اور میڈکولیگل ڈاکٹرز کی مشترکہ تربیت کروائی جائے۔

 ممبر خصوصی کمیٹی برائے اینٹی ریپ ایکٹ وزارت قانون و انصاف شرافت علی چودھری ایڈووکیٹ کے مطابق اگر کسی ریپ متاثرہ کو بروقت انصاف مل رہا ہو تو وہ کیوں حادثہ کی شکایت تاخیر سے درج کروائے گا؟ ہمارے ہاں پولیس اور معاشرے کا رویہ یہی ہے کہ متاثرہ فریق کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ 'اسی کا قصور ہو گا، اس خاتون نے ایسے کپڑے کیوں پہنے، ہمارے ایک وزیر اعظم نے بھی ماضی میں کپڑوں کا ذکر کر دیا تھا'۔ ریپ کے واقعہ کو ملزم کے ساتھ جوڑنے کے بجائے اسے متاثرہ فریق کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ فلاں ملزم نے ریپ کیا۔ نظام انصاف مؤثر نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی مثاثرہ کے خلاف ہی نظر آتا ہے۔ اسی طرح معاشرہ بھی ریپ متاثرہ کے خلاف دکھائی دیتا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ جب کوئی ریپ کا کیس درج ہو گیا ہے تو اس میں دیکھا جائے کہ ملزموں کو سزائیں دینے کی شرح کیا ہے؟ جب پراسیکیوشن اور پولیس محض 4 سے 5 فیصد ملزموں کو سزائیں دلوا سکیں گے تو اس کی وجہ ناقص تفتیش ہی ہے اور اس ناقص تفتیش کی وجہ سے پولیس افسران کو سزا ہو سکتی ہے لیکن آج تک کسی ایک بھی تفتیشی افسر کو ناقص تفتیش کی بنیاد پر سزا نہیں ہوئی۔ اس سارے نظام کی وجہ سے صرف متاثرہ فریق کا ہی نقصان ہوتا ہے۔ انصاف کا نظام ایسا ہے کہ متاثرہ فریق نے ہی ثابت کرنا ہوتا ہے اور ملزم نے کچھ بھی ثابت نہیں کرنا ہوتا۔

شرافت علی چودھری کا کہنا ہے کہ عدالت نے تو شواہد کی روشنی میں ملزم کو بلا شک و شبہ سزا سنانی ہوتی ہے اور کیس میں موجود شکوک و شبہات کو دور کرنا پولیس اور پراسیکیوشن کا کام ہے۔ اگر درست انداز میں فرانزک شواہد اکٹھے کئے جائیں تو سزاؤں کی شرح بہتر ہو سکتی ہے۔ عدالت نے ایک کیس میں صرف ایک بال بطور ثبوت جائے وقوعہ سے برآمد ہونے کی بنیاد پر ملزم کو سزا سنائی۔ پولیس جو شواہد فرانزک سائنس ایجنسی کو بھجواتی ہے ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ فرانزک سائنس ایجنسی کی ریپ کیسز میں آدھی سے زائد رپورٹس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ بھجوائے گئے سیمپل پر ڈی این اے نہیں ملا، درست انداز میں شواہد اکٹھے نہ ہونے کی وجہ سے ریپ کیسز کے ملزم بری ہو جاتے ہیں، سزاؤں کی شرح بڑھانے کیلئے پولیس کے تفتیشی افسروں کی تربیت کروانے کی ضرورت ہے۔

 فوجداری قانون کے ماہر فیصل اقبال باجوہ ایڈووکیٹ کے مطابق اینٹی ریپ ایکٹ میں خاتون سب انسپکٹر کو تفتیشی افسر تو بنا دیا گیا ہے مگر ان تفتیشی افسروں کی تربیت نہیں ہے اور وہ انہی روایتی اے ایس آئی عہدوں کے تفتیشی افسروں سے تحقیقات کروانے پر مجبور ہیں۔ اسی وجہ سے ملزموں کی بریت کی شرح زیادہ ہے۔ اینٹی ریپ ایکٹ کے تحت شواہد کو محفوظ بنانا ضروری ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے اکثر کیسز میں ایسا نہیں ہوتا۔ پولیس کی ناقص تفتیش کی وجہ سے حقیقی متاثرین کو انصاف نہیں ملتا۔

ان کا کہنا ہے کہ اینٹی ریپ ایکٹ تو بن گیا جس کے تحت مقدمہ کا فیصلہ بھی 6 ماہ کے اندر کرنا ہوتا ہے مگر اکثر کیسز کا فیصلہ 6 ماہ میں نہیں ہوتا۔ ملزموں کی بریت کی وجہ یہ ہے کہ تفتیش میں جدید آلات کا استعمال نہیں کیا جا رہا اور نا ہی تفتیشی افسروں کی کوئی تربیت ہے بلکہ آج بھی تفتیشی افسران قدیم دور کا طریقہ تفتیش استعمال کر رہے ہیں اور پولیس رولز 1934 کے بنے ہوئے ہیں۔

فیصل اقبال ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ریپ کے ملزموں کی بریت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عدالت سے باہر فریقین کے درمیان تصفیہ ہو جاتا ہے جبکہ قانون اس بات کا متقاضی ہے کہ ریپ جیسا جرم ناقابل راضی نامہ ہے مگر لوگ معاشرتی دباؤ کے تحت راضی نامہ کر لیتے ہیں کیونکہ عدالتوں میں کیسز کی سالہا سال تک چلنے والی سماعت کے بجائے لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اپنی رہی سہی عزت بچا لیں۔ کیونکہ عدالتوں کچہریوں کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ کچہریاں اور عدالتیں اچھی جگہ نہیں ہیں اور لوگ ان تمام مسائل سے بچنے کیلئے اس طرح کے کیسز میں راضی نامے کر لیتے ہیں۔

فیصل باجوہ ایڈووکیٹ کے خیال میں عدالتی نظام پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنے اور عوام کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے جبکہ تفتیش کو میرٹ پر مکمل کیا جائے اور جن کیسز میں الزامات جھوٹے ثابت ہوں انہیں عدالتوں میں آنے سے پہلے ہی ختم کیا جائے اور جن کیسز میں واقعی قابل سزا ثبوت موجود ہوں ان کیسز کے بروقت عدالتوں سے فیصلے کروائے جائیں اور مثالی سزائیں دی جائیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تفتیشی افسروں کی بروقت تربیت کروائی جائے کہ ایک ریپ کے مقدمہ کے شواہد کو محفوظ طریقے سے بروقت فرانزک سائنس ایجنسی کو بھجوایا جائے اور تفتیش میں جدید آلات کا استعمال کر کے ملزموں کو گرفتار کیا جائے اور قابل فیصلہ تفتیش کر کے کیسز عدالتوں میں جمع کروائے جائیں۔

تھانہ رائیونڈ سٹی میں درج مقدمے میں خاتون کے ساتھ زیادتی کرنے والے ملزم شاہد کو اسی بنیاد پر بری کیا گیا کہ اس مقدمہ میں تفتیش ناقص کی گئی اور خاتون پولیس سب انسپکٹر کے بجائے ایک مرد پولیس اسسٹنٹ سب انسپکٹر نے کی۔ متاثرہ خاتون نے ملزم شاہد کی بریت کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے اور استدعا کی ہے کہ ملزم کو قانون سے ہٹ کر بری کیا گیا جبکہ ملزم کے خلاف ٹھوس شواہد موجود تھے، اس کے باوجود سیشن عدالت نے ملزم کو مقدمہ سے بری کر دیا۔

ترجمان لاہور انویسٹی گیشن پولیس کا کہنا ہے کہ ریپ کے 95 فیصد کیسز میں فریقین پہلے خود سے راضی نامہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب اس میں ناکامی ہوتی ہے تو مقدمہ درج کرواتے ہیں۔ ریپ کے واقعات کی رپورٹ ہی تاخیر سے ہوتی ہے جس کی وجہ سے ڈی این اے کے ثبوت ختم ہو چکے ہوتے ہیں، تفتیشی افسران پھر بھی متاثرہ فریق کے کپڑے اور دیگر شواہد فرانزک سائنس لیبارٹری کو بھجواتے ہیں۔ محکمہ پولیس اپنے تفتیشی افسروں کی تربیت کرواتا رہتا ہے۔

منیر باجوہ صحافی ہیں اور مختلف موضوعات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔ وہ نیا دور میڈیا کی رپورٹنگ ٹیم کا حصہ ہیں۔