افغانستان میں طالبان کی پیش قدمیوں اور مختلف علاقوں پر قبضوں کے بعد ہی مختلف قسم کی قیاس آرائیاں سامنے آتی رہتی ہیں جن میں کچھ مصدقہ اور کچھ غیر مصدقہ ہوتی ہیں۔ تحریک طالبان افغانستان نے امن عمل کے دور میں مختلف انٹرویوزکے دوران کئی بار دعویٰ کیا ہے کہ وہ 90 کی دہائی کی پالیسیاں نہیں اپنائینگے اور خواتین کے حقوق سمیت دیگر معاملات پر نرمی کا مظاہرہ کرینگے۔ لیکن پیر کے روز سماجی رابطوں کے ویب سائٹس پر ایک دعویٰ سامنے ارہا ہے کہ افغانستان کے صوبے تحار میں گاڑی کی بیٹری چوری کرنے والے شخص کے ہاتھ کاٹ دئیے گئے ہیں جس کے بعد علاقے میں خوف کا سماں ہے۔ نیا دور میڈیا نے اس دعویٰ کی حقیقت جاننے کے لئے تحقیقات کی ہیں۔
ٹوئٹر پر ایک تصویر گردش کررہی ہے جس میں سفید کپڑوں میں ملبوس ایک شخص کو درختوں کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے اور ان کا سر نیچے کی طرف جھکا ہوا اور یہ دعویٰ سامنے ارہا ہے کہ ان کے ہاتھ چوری کرنے پر کاٹ دئیے گئے ہیں۔
نیا دور میڈیا نے اس تصویر کی حقیقت جانچنے کے لئے مختلف سرچ انجنز اور سافٹ ویرز سمیت گوگل ریورس سے اس تصویر کی حقیقت جاننے کی کوشش کی مگر یہ تصویر اس سے پہلے کسی بھی ویب سائٹ یا کسی اور جگہ موجود نہیں اورسوشل میڈیا پر چلنے والی یہ تصویر تازہ ہے ۔
افغانستان کے سرکاری محکمے میں کام کرنے والے ایک افسر نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ابھی تک ہماری اطلاعات بھی یہی ہے اور سوشل میڈیا پر بھی یہی چیز گردش کررہی ہے لیکن میں نے مقامی لوگوں سے معلوم کیا ہے اور اُن کا موقف یہ ہے کہ بیٹری چوری کرنے پر ایک شخص کو درخت سے کچھ وقت کے لئے باندھ دیا گیا تھا مگر اُس کے ہاتھ نہیں کاٹے گئے۔ طالبان کے ترجمان ہی اس کی تصدیق یا تردید کرسکتے ہیں۔
نیا دور میڈیا مسلسل افغان طالبان کے افغانستان میں مقیم ترجمان زبیح اللہ مجاہد سے رابطے میں ہے اور تاحال انھوں نے اس واقعے پر کوئی موقف نہیں دیا اور جیسے ہی اُن کی جانب سے موقف سامنے آئیگا تو قارئین کو اس واقعے کی حقیقت سے اگاہ کیا جائے گا۔