Get Alerts

پاکستان کرکٹ بورڈ کی حواس باختگی ملک کو بہت مہنگی پڑ رہی ہے

پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ 5 سال سے بحال ہو چکی ہے، پھر پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیسٹ سیریز کو متحدہ عرب امارات میں منتقل کرنے کی بات کیوں کی جا رہی ہے؟ یہ صرف اور صرف مفت کے سیر سپاٹے اور دوسرے اخراجات کرنے کا بہانہ ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی حواس باختگی ملک کو بہت مہنگی پڑ رہی ہے

پاکستان کرکٹ ٹیم کی حالیہ ناکامیوں نے کرکٹ بورڈ کی بیوروکریسی کو بظاہر حواس باختہ کر دیا ہے۔ وہاں ایک باریک واردات بھی ڈالی جا رہی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں تنزلی پہلے ون ڈے ورلڈ کپ میں افغانستان کے ہاتھوں غیر متوقع شکست اور ورلڈ کپ سے باہر ہونا، پھر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں امریکہ سے اپ سیٹ شکست اور اب ٹیسٹ کرکٹ میں بنگلہ دیش کے ہاتھوں ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش نے قومی ٹیم کو بہت زیادہ دباؤ میں ڈال دیا ہے۔ بنگلہ دیش کے ہاتھوں وائٹ واش کے بعد ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل کی دوڑ سے باہر کر دیا ہے۔ یوں تینوں کرکٹ فارمیٹس یعنی ون ڈے، ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ میں ہم مسلسل تنزلی کا شکار ہیں۔

کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی چونکہ کرکٹ سے نابلد ہیں، ان کی طاقت کے اصل مراکز نے بطور غیر آئینی وزیر اعلیٰ پنجاب رہنے اور اچھی چاکری کے انعام کے طور پر چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ بنایا ہے۔ ان کو کرکٹ کی کچھ سمجھ نہیں ہے۔ وہ صرف کرکٹ سٹیڈیم (لاہور، کراچی، راولپنڈی) کی تعمیر نو کے کاموں کے ساتھ کھڑے ہو کر فوٹو سیشن کروانے میں مصروف ہیں جبکہ کرکٹ بورڈ بیوروکریسی پھر غلط فیصلے کر رہی ہے اور ایک باریک واردات بھی ڈال رہی ہے۔

پہلے دو غلط فیصلوں کی بات کرتے ہیں۔ وقار یونس کو یک دم چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کا مشیر برائے کرکٹ امور مقرر کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کرکٹ کے حوالے سے تمام فیصلے وقار یونس کریں گے جبکہ محسن نقوی صرف انتظامی امور دیکھیں گے۔ وقار یونس نے چارج سنبھالنے کے 3 دن بعد ہی استعفیٰ دے دیا کیونکہ ان کو یہ عہدہ کرکٹ بورڈ نے اپنے قانونی طریقے کے برعکس دیا تھا۔ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کرکٹ بورڈ کے کسی بھی عہدہ کے لیے پہلے اشتہار دیا جاتا ہے، پھر بھرتی کی جاتی ہے مگر وقار یونس کو اس کے برعکس رکھا گیا تھا۔ اب امکان یہ پیدا ہو گیا اگر وقار یونس کی تقرری عدالت میں چیلنج ہو گئی تو کیا ہو گا۔ لہٰذا وقار یونس سے فورا استعفیٰ لے کر ان کو چیمپئنز کپ کی ایک ٹیم کا مینٹور لگا دیا گیا۔

چیمپئنز کپ ون ڈے فارمیٹ پر ہے جو آج سے شروع ہو چکا ہے۔ اس کے فوراً بعد پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ٹیسٹ سیریز ہے۔ اب کرکٹ بورڈ کی بیوروکریسی کو کس حکیم لقمان نے مشورہ دیا ہے کہ اتنی اہم ترین ٹیسٹ سیریز سے قبل ون ڈے کپ رکھا جائے۔ اگر اس ٹورنامنٹ میں ہمارے اہم ترین کھلاڑیوں میں سے کوئی بابر اعظم، محمد رضوان، سعود شکیل، شاہین شاہ آفریدی، ابرار احمد میں سے کوئی ان فٹ ہو گیا تو کون ذمہ دار ہو گا؟ ایک اہم ترین ٹیسٹ سیریز سے قبل ون ڈے کپ کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اس کے بجائے نئے کھلاڑیوں کے ساتھ فور ڈے کرکٹ کپ ہونا چاہیے تھا تاکہ نئے کھلاڑیوں میں کوئی ٹیسٹ سیریز کے لئے منتخب ہو سکتا۔ ون ڈے کپ کرانا تھا تو 2025 میں چیمپئنز ٹرافی سے قبل کرایا جاتا۔

اب اس باریک واردات کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی بیوروکریسی کو دو سال پہلے سے پتہ تھا کہ 2025 کی چیمپئنز ٹرافی پاکستان میں ہونی ہے اور اگر لاہور، کراچی اور راولپنڈی میں اس ٹرافی کے میچز کرانے ہیں تو ان تینوں شہروں میں بنے سٹیڈیمز کی تزئین و آرائش کا کام ہونا ہے تو بنگلہ دیش، انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف جو 7 ٹیسٹ میچ ہوم گراؤنڈ پر ہونے ہیں، ان کو کہاں کرانا ہے؟ پچھلے ڈیڑھ سال سے حیدر آباد، فیصل آباد، پشاور کے سٹیڈیم پر کام کیوں نہیں کیا گیا؟ وہاں ان 7 ٹیسٹ میچوں کو شیڈول کیوں نہیں کیا گیا؟ اب انگلینڈ کے خلاف تین ٹیسٹ میچز کی سیریز کے دو میچز متحدہ عرب امارات اور ایک ملتان میں کرانے کی بات کیوں کی جا رہی ہے؟ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ 5 سال سے بحال ہو چکی ہے، پھر اس کو متحدہ عرب امارات میں منتقل کرنے کی بات کیوں کی جا رہی ہے؟ یہ صرف اور صرف مفت کے سیر سپاٹے اور دوسرے اخراجات کرنے کا بہانہ ہے۔

ایک وقت تھا پاکستان کے 16 شہروں میں انٹرنیشنل کرکٹ میچ ہوتے تھے۔ اب ان کو چار شہروں میں محدود کر دیا گیا ہے۔ بھارت میں 51 شہروں میں انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم موجود ہیں۔ ہم 16 سے چار پر واپس آ چکے ہیں۔ کرکٹ بورڈ کی بیوروکریسی کرکٹ کے اس بحرانی دور میں باریک واردات ڈال رہی ہے۔ کرکٹ سے نابلد کٹھ پتلی چیئرمین محسن نقوی اس بات سے بے خبر ہے یا جان بوجھ کر خاموش ہے۔

حرف آخر محمد رضوان کو کپتان بنانے کا شگوفہ کس حکیم لقمان نے چھوڑا ہے؟ اس سے شان مسعود دباؤ کا شکار ہو گا۔ بار بار کپتان کی تبدیلی نہیں ہونی چاہیے۔ ٹیم کا ماحول جو پہلے ہی اچھا نہیں، مزید خراب ہو سکتا ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔