کرونا وائرس کے مریضوں کو بیماری سے بچانے کے لیے اگرچہ دنیا میں تاحال ویکسین تیار نہیں کی جا سکی اور نہ ہی اگلے سال تک ویکسین دستیاب ہو پائے گی لیکن اس کے علاوہ تقریباً دنیا کے تمام ممالک مذکورہ بیماری کے نئے نئے علاج دریافت کر رہے ہیں۔
اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک کے ماہرین صحت نے پرانی دوائیوں اور پرانے طریقہ علاج میں ترمیم کر کے کرونا کے مؤثر علاج کے طریقے دریافت کر لیے ہیں، جن کے اچھے نتائج بھی آ رہے ہیں۔ اگرچہ اس وقت پاکستان سے لے کر امریکہ تک کرونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے پلازما یا اینٹی باڈیز تھراپی کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے، تاہم پاکستانی طبی ماہرین نے اسی طریقہ علاج سے ایک نیا طریقہ نکال لیا ہے۔
صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں واقع ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (ڈی یو ایچ ایس) کی طبی ماہرین کی ایک ٹیم نے کرونا سے صحت یاب ہونے والے مریضوں سے حاصل کیے جانے والے اینٹی باڈیز کو صاف کر کے ان سے ایک خاص قسم کے ذرات حاصل کر کے ان سے انٹرا وینیس امیونو گلوبیولن ( آئی وی آئی جی ) تیار کی ہے۔
آئی وی آئی جی دراصل اینٹی باڈیز اور پلازما سمیت انسانی خون میں موجود دیگر ذرات کا ایک مکسچر ہوتا ہے اور اس طریقہ علاج کو پہلے بھی کئی بیماریوں کے لیے استعمال کیا جا تا رہا ہے۔ یہ طریقہ علاج عالمی سطح پر علاج کے طریقوں کی منظوری دینے والے امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے بھی منظور شدہ ہے اور اسے ماضی میں قوت مدافعت کی بیماریوں سمیت دیگر بیماریوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے تیار کیا گیا طریقہ علاج کرونا کے علاج کے لیے اہم پیش رفت ہے اور اسے دنیا بھر کو فائدہ حاصل ہوسکتا ہے، تاہم اس سے مقامی سطح پر سب سے زیادہ فائدہ ہو گا۔
ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر (وی سی) پروفیسر محمد سعید قریشی نے مذکورہ علاج کے حوالے سے بتایا کہ نئے طریقہ کار کو ڈاؤ کالج آف بائیوٹیکنالوجی کے پرنسپل پروفیسر شوکت علی کی سربراہی میں ایک ریسرچ ٹیم نے تیار کیا۔ یونیورسٹی کی ٹیم نے ابتدائی طور پر مارچ 2020 میں کچھ مریضوں کے خون کے نمونے جمع کیے، جس کے بعد مذکورہ مریضوں کے خون کے پلازما سے اینٹی باڈیز کو کیمیائی طور پر الگ و صاف کرنے کے بعد ان سے ایک نیا طریقہ علاج امیونوگلوبیولن تیار کیا۔
یونیورسٹی ٹیم کے مطابق اینٹی باڈیز میں ناپسندیدہ مواد اور بعض وائرس و بیکٹیریاز شامل ہوتے ہیں، اس لیے مذکورہ طریقہ کار کے تحت اینٹی باڈیز میں موجود ہر قسم کے ناپسندیدہ ذرات کو ایک طرف کر کے اینٹی باڈیز سے حتمی پروڈکٹ یعنی ہائپر امیونوگلوبیولن تیار کی جاتی ہے اور یہ طریقہ ماضی میں بھی اپنایا جاتا رہا ہے مگر اس طریقہ کو پہلے دوسری بیماریوں پر استعمال کیا جاتا تھا۔
نیا طریقہ تلاش کرنے والی ٹیم کے مطابق تیار کی گئی امیونو گلوبیولن کو کامیابی کے ساتھ تجرباتی بنیادوں پر انجیکشن کی شیشیوں میں محفوظ کر لیا گیا ہے اور جلد ہی اس طریقہ کار کے تحت علاج شروع کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے اس ضمن میں ڈاؤ یونیورسٹی ہسپتال کے معالجین کو ریسرچ ٹیم کے ساتھ مل کر اس نئے طریقہ علاج کے تحت ٹرائل کے لیے اخلاقی و قانونی حکمت عملی وضع کرنے کی ہدایات کر دی ہیں، تاکہ جلد سے جلد اس طریقے کو آزمایا جا سکے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان میں ہونے والی ریسرچ سے اس بات کے اشارے بھی ملے ہیں کہ مقامی سطح پر کرونا وائرس کی قسم میں کچھ جینیاتی تبدیلیاں ہوئی ہیں اور ایسی صورت میں مقامی وائرس کے خلاف بنائے گئے ڈاؤ یونیورسٹی کے نئے طریقے کو مؤثر اور مفید سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم مذکورہ طریقہ علاج کتنا کامیاب ہوگا، اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ اگلے 2 سے تین ہفتوں میں ڈاؤ یونیورسٹی اور ہسپتال انتظامیہ مذکورہ طریقے تحت مریضوں کا علاج کرنا شروع کر دے گی۔