جیسے کہا جائے بندے کی سوئی کہیں اٹک سی جاتی ہے، کچھ ایسا ہی سیاپا میرے ساتھ بھی تھا۔ تشنگی تھی میرے اندر۔ اکیلے گھومنے پھرنے کی، پابندیوں سے آزاد ہونے کی۔ اس صبح میں نے بیٹی کے ہاتھ پکڑ لیے تھے کہ وہ میرے پنجرے کو کھول دے۔ مجھے آزاد کر دے۔ بھرنے دے قلانچیں مجھے۔ میرے اندر کی بے چینی اور اضطراب کو تسکین پانے دے۔
صدقے جاؤں اپنی نور چشم کے۔ بیچاری میرا منہ دیکھ رہی تھی۔ شاید خود سے کہتی ہو؛ 'پاگل ہو گئی ہے میری ماں تو۔ اب میری جان تو سولی پر ہی اٹکی رہے گی'۔
ماں اپنے طور پر جزبز ہو رہی تھی۔ پاگل سی بیٹی سمجھتی ہی نہیں کہ اس زمانے بھر کی آپ پھدری عورت کو جس نے کسی بھی ملک میں داخلے کے لیے بس دو ہی باتوں کو اہم سمجھا، ویزا کی کنجی اور مرکزی شہر کی کسی سستی سی سرائے میں قیام۔ اگلے سب مرحلے تو بس وہیں برزمین دائیں پوچھ، بائیں پوچھ کی بیساکھیوں پر طے ہوتے تھے۔
اب کیا کہوں، کہتے ہیں گوشت اگر سڑ بھی جائے تب بھی چنے کی دال سے پنھٹ (خراب) نہیں ہو سکتا۔
'ارے بھئی بے شک بوڑھی ہو گئی ہوں۔ بے شک اجنبی ملک ہے۔ تو بھئی کیا ہوا؟ یہ سب میرے لیے کچھ نیا ہے کیا؟ میری آزمائی ہوئی چیزیں ہیں۔ ان سے کیا ڈرنا؟'
رات پروگرام بناتے ہوئے باقاعدہ سوال جواب کا ایک چھوٹا سا سیشن بھی اپنے اندر کر لیا تھا۔
'میں لولی لنگی بن کر زیادہ دیر نہیں رہ سکتی ہوں۔ مجھے سب سے پہلے تھین آن من سکوائر اکیلے جانا ہے، بہت سارا وقت وہاں گزارنا ہے۔ بچوں کے لیے فاتحہ بھی پڑھنی ہے۔ اُن سے کچھ باتیں بھی کرنی ہیں'۔ جواب بھی اپنے آپ کو دے دیا تھا۔
اور ہاں میرے ذہن میں بے شمار کلبلاتے سوال پیدا ہوئے ہیں جن کا جواب وہیں بیٹھ کر سوچنا اور خود کو دینا ہے۔
چلو کچھ حوصلہ، کچھ جگرا اس نے کیا۔ طے پایا کہ وہ مجھے دیدی (پاکستانی اوبر) میں چھوڑ آئے گی اور میں چند گھنٹوں بعد اسی میں گھر آ جاؤں گی۔
جب وہ مجھے اس کی وسعتوں میں چھوڑ رہی تھی اس نے پھر تاکید کی تھی؛
'زیادہ دور مت جائیے گا اور ایڈریس سنبھال کر رکھنا ہے'۔
اس کے جانے کے بعد میں کھلکھلا کر ہنسی تھی۔ میں نے گرد و پیش کو چاہت سے دیکھا تھا۔ موسم میں خنکی تھی۔ دھوپ میں نرمی تھی۔ میرے چھوٹے سے بیگ میں چھوٹی سی فلاسک، شامی کباب اور نٹز تھے۔ کچھ دیر بیٹھ کر میں نے اپنی آزادی کا جشن منایا، پھر خود سے پوچھا؛
'اب کہاں سے شروع کرنا ہے؟'
سوچا پہلے ماؤ کی زیارت کرتی ہوں۔ وہی ریڈ سکوائر، لینن کے مقبرے اور اسی سے ملتی جلتی تصویریں اور رنگ ہیں۔ مقبرہ اسی جگہ بنایا گیا ہے جہاں کبھی گیٹ آف چائنا تھا۔ سکوائر کمال وسعتوں والا ہے۔ اس وقت صبح ہونے کے باوجود بہتیرے لوگ تھے۔
مقبرے کے سامنے لوگوں کی قطار تھی اور بہت لمبی تھی۔ کم بخت ماری مشترکہ یادیں جونک کی طرح ساتھ چمٹی ہوئی تھیں۔ ریڈ سکوائر بھی ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ انیتا یاد آئی تھی۔ بہت رش تھا یہاں تو۔ کوئی سکول یا کالج آیا ہوا تھا۔ مرکزی دروازے کے پاس ہی گل دستے قطار در قطار سجے ہوئے تھے۔ لوگ انہیں خرید رہے تھے۔ سوچا اور خود سے پوچھا؛
'میں نے لینن کے لیے کچھ خریدا تھا؟'
یاد آیا؛ 'نہیں۔ تو پھر یہاں بھی ضرورت نہیں'۔ مگر دل نے فوراً کہا؛
'نہیں یہ میرا دوست ملک ہے۔ گہرا اور مشکل وقت میں ساتھ کھڑا ہونے والا'۔
شکر ہے میرے جیسی بھلکڑ نے اپنا پاسپورٹ بیگ میں رکھ لیا تھا۔ رش کو آئرن سٹیل کی راہداریوں سے بہت منظم انداز میں گزارا جا رہا تھا۔ گلدستہ صرف تین یوآن میں خریدا تھا۔ اسے اپنے بازوؤں میں سنبھالے زرد روشنی میں مجسموں کی طرح ساکت کھڑے گارڈوں اور مسمریزم جیسی فضا میں سانس لیتی دھیرے دھیرے آگے بڑھتی چلی جاتی ہوں۔ بڑے دروازے سے اندر جاتے ہی ایک شاندار کمرے میں ماؤ کا سفید براق سنگ مر مر کا مجسمہ کرسی پر بیٹھا نظر آتا ہے۔ یہیں اس کے قدموں میں پھول رکھ دیے جاتے ہیں۔ پتہ چلا تھا کہ یہ پھول واپس اسی سٹال پر پہنچا دیے جاتے ہیں جہاں سے خریدے جاتے ہیں۔
تو اب ماؤ کو دیکھتی ہوں جو ایک شو کیس میں سجا چین کے قومی پرچم میں لپٹا گہری نیند سو رہا ہے۔ بہت فراخ پیشانی جس نے چوتھائی سر بھی ساتھ شامل کر لیا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کی ماؤ ازم کی پرستار ساری بنگالی سہیلیاں یاد آ گئی تھیں جو اس کے نغمے گاتی تھیں۔
ماؤ نے اپنے جسم کو جلانے کی خواہش کی تھی مگر پرستاروں اور عقیدت مندوں نے اسے محفوظ کر دیا۔ اسی طرح جیسے لینن نے بھی ایسا نہیں چاہا تھا۔ اس کی بیوی کرپسکایا واویلا مچاتی رہ گئی کہ اُس کے نظریات اور فرمودات پر عمل کی ضرورت ہے مگر سٹالن جیسا شاطر لیڈر لاش پر سیاست کرنے کا متمنی تھا۔
ماؤ کی ایک نظم یاد آئی تھی۔ چینی عورت کو خراج پیش کرنے والی۔ ابھی کوئی دو دن پہلے نظر سے گزری تھی۔ بہت پسند آئی تھی مجھے۔
پانچ فٹ لمبی رائفلوں کو کندھوں پر لٹکائے
وہ کتنی خوبصورت اور شاندار نظر آتی ہیں
چین کی بیٹیوں کے عزائم بہت بلند ہیں
صبح کی اولین مدھم روشنی میں انہیں
پریڈ گراؤنڈ میں جنگی مشقوں کی قطار بننے سے پیار ہے
ریشم اور ہار سنگھار کی چیزوں سے کہیں زیادہ
لانگ مارچ کے بیج بونے کی مشین کہہ لیں جس نے 11 صوبوں میں انقلاب کے بیج بوئے۔ پہلے شگوفے، پتے، پھول اور پھل سب بڑی محنت و مشقت سے لگے۔ پھر ایک فصل کٹی۔ سچی بات ہے۔ یہ ایسا شور تھا جس نے دنیا کو واشگاف لفظوں میں بتایا کہ سرخ فوج ہیروں کی فوج ہے جبکہ سامراجی چیانگ کائی شک اور ان کے حالی موالی انتہائی ناکارہ لوگ ہیں۔
اس کی ایک اور نظم لانگ مارچ کے حوالے سے یاد آ گئی تھی؛
سرخ فوج لانگ مارچ کی سختیوں سے ذرا بھی خائف نہیں
دس ہزار چٹانوں جیسی مضبوطی سے اور بہتے طوفانوں جیسے
پانچ چٹانوں سے آنے والی سبک لہروں جیسی ہوا
اور عظیم الشان Wumengچکنی مٹی کے ڈھالے برتن
Jinsha کے پانیوں میں ابھری چٹانوں کو گرماتے ہیں
اور Daduدریا کی آہنی زنجیروں کو ٹھنڈا کرتے ہیں
اور Minکی چوٹیوں کی برف کو خوشی سے پار کرتے ہیں
اور تینوں فوجیں بڑھی چلی جاتی ہیں، چمکتے چہروں کے ساتھ
جب باہر نکلی تو دھوپ میں اب تک کوئی شوخی، کہیں کوئی چلبلاہٹ، کسی قسم کی تندی و تیزی کچھ بھی نہ رہا تھا۔ وہی مری مری سی زور دار ہواؤں کے سامنے گھگھیاتی ہوئی۔
تاحد نظر پھیلے اِس سکوائر میں کوئی بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے۔ سوچا یہیں کالم کے پاس پھسکڑا مار کر بیٹھتی ہوں۔ اٹھنے کا مرحلہ مشکل ہو گا۔ مگر کچھ نہ کچھ تو ہو جائے گا خیر سے۔
شانوں سے بیگ اتارا۔ چاہت سے چھوٹی سی فلاسک نکالی۔ شامی کبابوں کی خوشبو نے بے چین کر دیا۔ بھوک ابھی چمکی نہیں تھی۔ اندر نے کہا؛ 'لعنت بھیجو، کھاؤ پیو اور لطف اٹھاؤ'۔
بس گھونٹ گھونٹ چائے کی چسکیاں اور شامی کی چھوٹی چھوٹی بائٹ لینا کیا مسرور کن عمل تھا!
پھر یوں ہوا کہ میں نے ٹانگیں پساریں۔ اپنے سامنے بکھرے سکوائر کو دیکھا اور 1989 کے دنوں کو اپنے سامنے مجسم کیا۔
سکوائر تو رونقوں سے بھرا ہوا تھا۔ جمہوریت کے لیے نئی نسل کے جذبات تو 1976 سے ہی اندر ہی اندر پرورش پانے لگے تھے اور پھر 1989 میں تو لاوا ہی پھوٹ نکلا تھا۔ نئی نسل آزادی اظہار کی متمنی تھی۔ پرانی نسل غلط پالیسیوں پر احتجاج کرنے کی آرزو مند تھی۔ شاعر، لکھاری اور زندگی کے دیگر شعبوں سے منسلک لوگوں میں یہ بیج پھلنے پھولنے لگے تھے۔ نئی نسل نمائندہ بن کر ابھری تھی اور پھر وہی ہوا جو نہیں ہونا چاہئیے تھا۔
زمین گلزار بنی، جیلیں بھری گئیں۔ جلاوطنیاں ہوئیں۔ مسٹی شاعر اور لکھاری وجود میں آئے اور تھیان آن من نسل پیدا ہوئی۔
کل لیپ ٹاپ پر میں نے بہت سارے منظر دیکھے تھے۔ اس وقت ان کی یاد نے میری آنکھوں کو پھر گیلا کر دیا تھا۔
تب میں نے اس چینی نژاد امریکی شاعر Bei Daoجس کا اصل نام Zhao Zhenkalہے، کو یاد کیا جو ایسی خوبصورت انقلابی شاعری کا خالق تھا کہ جس نے احتجاجیوں کے دلوں کو گرما دیا تھا۔ جس کے شعروں سے انہوں نے بینر سجائے اور جنہیں وہ مائیک پر پڑھتے اور لوگوں کو احساس دلاتے تھے کہ ملک کی سنجیدہ اور انٹلیکچوئل کلاس آپ کے ساتھ ہے۔
تب اس کی بہت سی انقلابی نظمیں میں نے پڑھیں۔ جدوجہد کرنے والوں کے لیے لکھی جانے والی۔
شاید آخری وقت آن پہنچا ہے
میں کوئی شہادت نہیں چھوڑنا چاہتا
سوائے ایک پن کے جو میری ماں کے لیے ہے
ایک ایسے وقت میں جو ہیروز کے بغیر ہے
میں صرف ایک فرد کے طور پر رہنا چاہتا ہوں
۔۔۔
امن کا افق
زندوں اور مردوں کو الگ کرتا ہے
میں صرف جنت کا طلب گار ہوں
اور میں حاکم وقت کے آگے
جھکوں گا نہیں کہ وہ لمبا لگے
اور آزادی کی ہوا کو روکے
۔۔۔
ستاروں کے گولیوں جیسے سوراخوں سے
خون آشام صبح جھانکے گی
۔۔۔
1989 کی سب یادوں کی ایک کے بعد ایک کی یلغار تھی۔ میں نے ہاتھ اٹھائے۔ فاتحہ پڑھی اور خود سے بولی؛
'میں نہیں جانتی غلطی تمہاری تھی۔ مجھے اس پر بھی کوئی رائے نہیں دینی کہ تمہارے مطالبات جائز تھے یا نہیں۔ تمہاری حکومتوں بارے بھی کچھ نہیں کہنا کہ انہوں نے تم پر ظلم کیا۔
بس میں ایک بات جانتی ہوں کہ کہیں اگر تم زندہ ہو کر ایک بار اپنے ملک کو دیکھنے آ جاؤ تو فرط حیرت سے گنگ رہ جاؤ گے اور یقیناً کہو گے؛
اے وطن ہم نثار تجھ پر
ہمارے خون نے تمہیں حیاتِ نو دی۔ اِسے دنیا میں ممتاز کیا۔ ہزاروں کیا، لاکھوں کیا، کروڑوں ہم جیسی جانیں تجھ پر قربان'۔
چائے کا دوسرا کپ بھرا اور پیا۔ باقی بچا کھچا کباب پار کیا۔ اردگرد گھومی پھری۔ تھک کر ایک جگہ بیٹھی۔ سوچوں کی پھر یلغاریں تھیں۔
میں ایک بار پھر کچھ الٹے پلٹے سوالوں کی زد میں تھی۔ اب خود سے مکالموں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ آپ بھی شامل ہوں۔
اب حملہ آور خیال کون سے تھے؟
چین اور روس دو بڑے ملک جو نظریاتی مسلک کے اعتبار سے ایک دوسرے سے گہری مماثلت رکھتے تھے۔ گو بدلتے حالات میں دونوں ہی بہت حد تک تائب ہوئے پڑے ہیں۔ اقتصادی پالیسیوں نے کایا کلپ کر دی ہے۔ تاہم بہت سی چیزوں میں ابھی بھی جڑے نظر آتے ہیں کہ ہمسائے بھی ہیں اور ماڑے موٹے سرخے بھی۔
تھین آن من سکوائر کی وسعت حیران کُن ہے۔ تاریخ بھی بڑی قدیم، ساتھ ساتھ جدید زمانے کے نئی نسل پر ظلم و ستم، ٹینک توپوں کے چڑھاوے اور لہو رنگ کہانیاں بھی اس کی نام وری کا ایک بڑا حوالہ ہیں۔ جگہ بھی بڑی مرکزی۔ سکوائر کی ایک سمت چینی کیمونسٹ انقلاب کے بانی ماؤ اور قوم کے جیالے اور سربکف مجاہدوں سے سجی کھڑی ہے۔ وہی ریڈ سکوائر میں لینن کے مقبرے اور اسی سے ملتی جلتی تصویریں اور رنگ۔
نیشنل میوزیم آف چائنا میں دیکھ چکی ہوں۔ ریڈ سکوائر کے سٹیٹ ہسٹری میوزیم نے بہت کچھ یاد دلا دیا ہے۔ ایک طرف قدیم شاہوں کے فاربڈن سٹی کی سرخ کنگری دار دیوار نظر آتی ہے۔ ریڈ سکوائر کے پہلو میں کریملن کی کنگورے دار سرخ دیوار بھی یادوں میں بے طرح ابھر آئی ہے۔
اِس ضمن میں اب تھوڑا سا ذکر اور سوالوں کی تکرار بھی سُن لیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین سے پاکستان کے گہرے روابط آج سے نہیں ہیں۔ چین کو ہم اپنا ایسا قابلِ فخر دوست کہتے ہیں جو ہر کڑے وقت میں ہمارے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ ہم جذباتی پاکستانیوں نے اِس دوستی کی وضاحت کے لیے بہت سی مثالیں بھی گھڑ رکھی ہیں جن کی قوموں کی سیاسی اور عملی زندگی میں اہمیت نہیں ہوتی۔ یہاں دوستیاں قومی مفادات کے تابع چلتی ہیں مگر جی کیا کریں۔
ہم جذباتی پاکستانیوں کی نفسیات بھی بڑی عجیب ہے۔ اب جہاں تک روس سے تعلقات کا سوال ہے یہ کبھی بہت خوشگوار نہیں رہے۔ کبھی کبھی تو بہت تلخیاں بھی پیدا ہوئیں۔ پاکستان نشانے پر رکھا گیا۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ میں اپنے دوست ملک کی اس مرکزی جگہ پر جا کر بھی اپنے اندر کی اس ہماہمی سے جیسے خالی سی تھی۔
فاربڈن سٹی کا نام تو سُنا تھا مگر لاعلمی بھی انتہا کی تھی۔ تھین آن من سکوائر دیکھنے کا شوق تو تھا مگر اس رومانیت کا عشر عشیر بھی نہ تھا جو ریڈ سکوائر کے لیے تھا۔ مجھے یاد ہے ماسکو جانا خواب تھا کہ ویزا کی پابندیاں بہت تھیں۔ آج جیسے حالات نہ تھے۔ پہلا دن اور پہلا کام ریڈ سکوائر جانا، لینن کا مقبرہ اور ریڈ سکوائر کے گرد و نواح میں کریملن کی کنگوروں والی دیوار کہ جس میں قرونِ وسطیٰ کا تعمیری حسن مضمر تھا، کو دیکھنا گویا اس عہد کی خوشبو میں سانس لینے جیسا احساس تھا۔ مگر میں کریملن میں نہیں گھسی کہ اُسے ایک تحفے کے طور پر سنبھالنا چاہتی تھی کہ وقت آخر مزے سے دیکھوں گی۔ روح افزا کے میٹھے اور یخ ٹھنڈے مشروب کی طرح اُسے گھونٹ گھونٹ پیوں گی۔
غور کرتی ہوں تو جیسے پردے سے اُٹھتے ہیں۔ روسی ادیب ایک کے بعد ایک یاد آتے ہیں۔ 1970 اور 80 کی دہائیوں میں لیو ٹالسٹائی کو پڑھا۔ میکسم گورکی، پشکن، دستووسکی، چیخوف، گوگول اور پینووا ویرا Panova Veraکو ایک بار تھوڑی، بار بار پڑھا۔ کتنے آنسو بہائے۔ کتنے پرمسرت لمحے بِتائے ان کی صحبتوں میں۔ روس اور اس کے شہروں اور جگہوں سے انجانی سی محبت ہوئی۔
میرے خیال میں سوویت یونین کی وزاتِ اطلاعات و نشریات نے بھی اِس ضمن میں بہت کام کیا۔ دوسرے برصغیر کے ترقی پسند مصنفین جنہوں نے ٹالسٹائی، میکسم گورکی، پشکن، دستووسکی، چیخوف اور گوگول کو ترجمہ کرنے کو روس کے ساتھ اپنی محبت سمجھا۔ ان کتابوں کو سستے کاغذ پر چھپوایا اور عام لوگوں کو پڑھایا۔ کچھ یوں کہ روس کا طاقتور ادب اپنی پوری توانائیوں سے پڑھے لکھے لوگوں کے سامنے آیا۔ وہ روسی ادیبوں سے مانوس ہی نہیں ہوئے، انہوں نے ان سے محبت بھی کی۔
گورکی کی ماں نلوونا تو اپنی ماں جیسی ہی لگتی تھی۔ صوفیہ ٹالسٹائی کے دکھوں اور ٹالسٹائی کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں پر ہمیں اپنی عورت کی جھلک نظر آتی ہے۔ ایسے ہی تو پیٹرز برگ کے ریلوے سٹیشن پر اترتے ہی دستووسکی کے گھر جانے کی ہڑک اٹھی تھی۔ سچی بات یہاں تو ایسی کوئی ہڑک ہی نہیں تھی کہ مجھے اپنی کم علمی کا اعتراف ہے کہ میں نے کِسی چینی لکھاری کو نہیں پڑھا تھا۔ کتابیں کتنی اہم اور ادیب کتنا بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔
تھین آن من سکوائر میں یہی اہم نُکتہ میرے اوپر منکشف ہوا تھا۔